میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا۔۔۔۔

اور ایک خبر یہ بھی ہے کہ خیبر پختونخوا کے پولیس سٹیشنز کے روایتی ” تھانہ کلچر “ کو تبدیل کرنے اور تعلیم یافتہ محرر صاحبان کی تعیناتی کو یقینی بنانے کےلئے انسپکٹر جنرل آف پولیس ثناءاللہ عباسی کی ہدایت پر موجو د و میسر محرر صاحبان کو بھی تحریری امتحان کے مرحلے سے گزرنا پڑا ، اب یہ علم تو نہیں کہ اس تحریری امتحان کےلئے کس طرح کا نصاب ترتیب دیا گیا تھا ، لیکن چونکہ محرر کا کام تو لکھنا ہی ہوتا ہے اس لئے تحریری امتحان میں انہیں زیادہ مشکلات کا سامنا نہیں کرنا پڑا ہو گا،تاہم یہ تشویش کی بات ضرورہے کہ کچھ محرراس متحان میں ناکام بھی ہوئے ہیں، آخر اتنا عرصہ آخر وہ ” تھانوں“ میں روزنامچہ کس طور لکھتے رہے ہوں گے۔ ویسے تو ان محرر صاحبان کی لکھی ہوئی رپورٹس کا پڑھنا عام طور پر کسی بھی غیر متعلقہ شخص کےلئے بہت مشکل بلکہ کسی حد تک نا ممکن بھی ہوتا ہے۔ جس طرح پٹواری اور عرضی نویس کی تحریر کو پڑھنا قریب قریب ناممکن ہو تا ہے بلکہ اس فہرست میں بہت سے ڈاکٹر صاحبان بھی شامل ہیں،ڈاکٹر یونس بٹ نے اپنے خاکے میں لکھا ہے کہ ” مجھ میں ڈاکٹر بننے کی صلاحیت بچپن ہی سے تھی کیونکہ میں شروع ہی سے ’ بد خط‘ تھا “ پھر پٹواری یا محرر صاحبان کے لکھے ہوئے کو نہ پڑھ سکنے کی وجہ، ایک تو ان کی لکھائی اور پھر ان کامخصوص ڈکشن (طرز تحریر)ہے ، اس لئے یہ محرر صاحبان کا امتحان تو تھا مگر یہ ان پولیس افسران بلکہ ان کی زبان میں ” ا فسران بالا “ کا بھی امتحان رہا ہو گا جنہوں نے ان کے پرچے چیک کئے ہوں گے، کیونکہ ان کی تحریر کا پڑھنا اور سمجھنا بھی الگ سے ٹریننگ یا امتحان کا متقاضی ہے۔ اس لئے ممکن ہے کہ جو امیدوار ناکام ہوئے ہیں اس کی وجہ ان کی تحریر و زبان کا پرچے دیکھنے والوں کی سمجھ میں نہ آنا ہو۔ ویسے کتنی عجیب بات ہے کہ ایک عرصہ تک اپنی ڈیوٹی انجام دینے والوں کو اچانک امتحان کے مراحل سے گزرنا پڑا۔ امتحان کے بارے میں دعائیہ روزمرہ یہی ہے کہ ” اللہ امتحانوں سے بچائے “ ویسے تو یہ زندگی قدم قدم پر ایک نیا امتحان لے رہی ہوتی ہے لیکن مان لینا چاہئے کہ عمر کے ایک خاص حصّے میں لڑکے بالوں کی طرح تحریری امتحان دینا ایک مشکل اور ادق مشق ہے، دوران ملازمت اکثر ٹریننگ کےلئے یار لوگوں کو جانا ہوتا ہے اور اگر انہیں ٹرینگ کے دوران لیکچر سننے کےلئے بیٹھنا پڑے تو سارا وقت جمائیاں اور انگڑائیاں لینے میں اور خود کو سونے سے روکنے میں گزر جاتا ہے ، کچھ عرصہ پہلے اسی پولیس کے محکمہ کے ٹریفک وارڈنز کےلئے بھی ایک خصوصی ٹریننگ کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں انہیں معاشرتی رکھ رکھاو¿ انسانی نفسیات اور تہذیب و تمدن کی آگہی دی گئی تھی۔ یہ ایک بہت دلچسپ سیریز تھی، تب دوست ِ عزیز ناصر درانی خیبر پختونخوا پولیس کے بڑے صاحب تھے اور ان کی خواہش پر اس طرح کی سرگرمیوں میں ادب و صحافت سے وابستہ لوگوں کو بھی شریک رکھا جاتا تھا، پولیس والوں کے بارے میں اکثر لوگوں کا یہ خیال ہے کہ غالب نے یہ مصرع ان کے لئے ہی کہا ہے کہ
 نہ ان کی دوستی اچھی نہ ان کی دشمنی اچھی
 لیکن میرا تجربہ بعض دل کے قریب دوستوں کے حوالے سے یک سر مختلف ہے ، پھر یہ میری خوش قسمتی ہے کہ میں دوست مہربان سابق آئی جی پی خیبر پختونخوا سعید خان کے زمانے سے پولیس کی ادبی سماجی اور ثقافتی سرگرمیوں میں ایک تواتر سے بطور کمپیئر شریک ہوتا رہا ہوںبلکہ جب پہلی بار یوم شہدائے پولیس کی بڑی تقریب ترتیب دی گئی تھی تو اس وقت کے ایڈیشنل آئی جی پولیس میاں محمد آصف میرے گھر تشریف لائے تھے ان کے ہمرا ہ دوست ِ عزیز محمد فہیم صدیقی ( سابق اکاو¿نٹنٹ جنرل)بھی تھے، اور ہم تینوںنے اس تقریب کی ترتیب کے خال و خد پر گفتگو کی تھی، اس تقریب کےلئے میں نے ان کی فرمائش پر ایک نظم بھی لکھی تھی ،میاں محمد آصف درویش آدمی ہیں جب تک وہ پشاور میں رہے بار ہا شام کو ادبی گفت و شنید کےلئے میرے گھر تشریف لایا کرتے انہی دنوں ان کا امریکہ کا سفر نامہ ” اپنوں کے درمیاں “ شائع ہوا تھا جس میں میرا لکھا ہوا دیباچہ بھی شامل ہے ، اس کتاب میں کئی نامی گرامی شاعر افسانہ و ناول نگاروں کے مضامین اور تاثرات شامل ہیں لیکن جب بھی ملتے کہتے ” جس جس نے بھی کتاب پڑھی ہے اس نے آپ کا لکھا ہوا دیباچہ بہت پسند کیا ہے، ان کی محبت کا مجھے اندازہ ہے اس لئے مجھے یقین ہے کہ وہ سب دوستوں سے یہی کہتے ہوں گے کہ ” آپ کا لکھا ہوا مضمون بہت پسند کیا جا رہا ہے، “ مجھے یاد ہے کہ سعید خان جب آئی جی خیبر پختونخوا تھے میں ان دنوں گلشن کالونی میں رہتا تھا، وہ میرے اس گھر کئی بار آئے ان کا ادبی ذوق بھی عمدہ تھا ،میں نے کئی مرتبہ ان کےلئے تقریر بھی لکھی ان کی خواہش ہوتی کہ تقریر میں کوئی اچھا سا شعر ضرور ہونا چاہئے ، ایک بار میں انہیں افراز اور ابتسام کی رسم آمین میں شرکت کی دعوت دی تو اس شام انہیں اسلام آباد ایک میٹنگ میں جانا تھا اس لئے پہلے سے معذرت کر دی لیکن جس شام تقریب تھی اس دن صبح سویرے وہ خود ڈرائیو کرتے ہوئے میرے گھر ” لدے پھندے“ آئے اور بچوں کو ا یڈوانس مبارکباد دے گئے، یہ ٹھیک ہے کہ وہ زمانہ نسبتاََ امن کا زمانہ تھا ، مگر پولیس کے احباب میں سے جس سے بھی دوستی رہی وہ بے تکلف ملنے آتے تھے، بلکہ دل کے قریب دوست قاضی جمیل الرحمن جو آج کل انسپکٹر جنرل آف پولیس اسلام آباد ہیں جب تک پشاور میں رہے اکثرملنے اور ادبی گپ شپ کے لئے گھر آتے رہے ان کا ادبی ذوق بہت عمدہ ہے ،بلکہ ایک بار جب میں نے انہیں بتایا کہ میں نیشنل بک فاو¿نڈیشن کے ایک مشاعرہ میں شریک ہونے اسلا م آباد جا رہا ہوں تو کہنے لگے کس وقت ہو گا میں نے کہا کہ رات نو بجے کا وقت ہے ، پھرمیں نے کہا موڈ بنتا ہے تو چلیں، مسکراتے ہو ئے کہا ، دیکھتا ہوں، جب میں اسلام آباد سے واپس آ یا تو قاضی جمیل الرحمن کا فون آ یا،میں نے انہیں بتایا کہ رات بہت اچھا مشاعرہ ہوا، کہنے لگے ،آپ کے پڑھنے کے بعد بھی مشاعرہ جما رہا، میں نے کہا جی بالکل پہلے بھی اور بعد میں بھی خوب محفل رہی۔ ، کہنے لگے آپ کے پڑھنے کے بعد کا علم نہیں پہلے تو واقعی خوب تھا۔مگر میں آپ کے پڑھنے کے فور ا َ َ بعد واپس پشاور آ گیا تھا، ۔ میں نے پوچھا، کیا مطلب ؟ آپ کہاں تھے۔ کہنے لگے آپ کو سننے آیا تھا ، میں نے چیخ کر کہا مگر ملے کیوں نہیں، کہنے لگے وہ آپ فلاں فلاں دوستوںکے ساتھ چہک رہے تھے، میں نے ڈسٹرب کرنا مناسب نہیں سمجھا پیچھے بیٹھ کر مشاعرہ سن کر چلا آیا،، میری آنکھوں میں دھواں بھر گیا، اچھے اور پر خلوص دوست بھی قسمت والوں ہی کو نصیب ہوتے ہیں، غالب کا مصرع پولیس کے دوستوں کے لئے ہے یا نہیں مگر بشیر بدر کا یہ شعر ضرور ان کے بارے میں ہے ۔
 پتھر مجھے کہتا ہے میرا چاہنے والا
 میں موم ہوں اس نے مجھے چھو کر نہیں دیکھا