گزشتہ سال کوویڈ 19 کی صورت میں ایک ایسا تباہ کن بحران آیا، جس نے صرف پاکستان ہی نہیں, پوری دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔ ہماری کمزور معاشی حالت کے پیش نظر یہ بہت پریشان کن مرحلہ تھا، اس سے نپٹنے کےلئے خصوصی فنڈ مختص ہوئے، ایک طرف بےروزگار ہونے والوں کو بھوک سے بچانے کےلئے اقدامات اٹھائے گئے، تو دوسری طرف وائرس میں مبتلا ہونے والوں کےلئے طبی سہولیات کی فراہمی اور خصوصی قرنطینہ مراکز بنانے کےلئے بڑی رقم رکھی گئی، اس بات کا اعتراف نہ کرنا زیادتی ہوگی کہ احساس کفالت پروگرام کے تحت پہلی بار شفاف انداز میں ضرورت مندوں میں امداد تقسیم کی گئی، لیکن اس کے برعکس طبی اقدامات کےلئے فنڈز میں بھاری گھپلوں کی شکایات سامنے آئیں، یہ بات سپریم کورٹ تک پہنچی اور ابھی تک ابتدائی طور پر ہونے والے اخراجات کا حساب نہیں دیا جا سکا۔ کورونا کے ساتھ ایک سال گزارنے کے بعد اب اس سے بچاو¿ کےلئے ویکسین لگانے کا کام شروع ہے، باقی دنیا میں تو فروری سے ویکسینیشن شروع ہو گئی تھی، مگر ہمارے ہاں مارچ سے شروع ہوئی ہے، ابھی تک چین کی طرف سے تحفے میں ملنے والی سینوفارم ویکسین ہی لگائی جا رہی ہے، پہلے مرحلے میں طبی عملے کو لگائی گئی، پھر ساٹھ سال سے بڑی عمر کے بزرگوں کو لگائی جارہی ہے۔ لیکن حکومت نے اب نجی شعبے کو چین، روس اور بھارت سے ویکسین درآمد کرنے کی اجازت دی گئی ہے، ابھی صرف روس سے سپونتک ویکسین درآمد کی گئی ہے اور اس کی قیمت 45 سے 50 ڈالر مقرر کی گئی ہے، یہ بھی چینی ویکسین کی طرح دو خوراک پر مشتمل ڈوز ہے، اب بتایا جا رہا ہے کہ دنیا میں اس کی قیمت 10 ڈالر ہے پاکستان میںاس کی قیمت چار گنا زیادہ رکھی گئی ہے۔ آج سے ایک ماہ پہلے تک حکومت اس بات پر دنیا سے شاباش و تحسین وصول کر رہی تھی کہ کورونا سے بچاو¿، اور اس کے مالی اثرات سے عوام کو بچانے کےلئے موثر حکمت عملی تیار کی گئی، جس کے باعث نہ صرف وائرس کو پھیلنے سے روکا گیا، بلکہ ہلاکتوں کی تعداد بھی ایک فیصد سے نہیں بڑھی، مگر ایک ماہ میں ہی جس تیزی سے نئی لہر آئی اور پھیلی اس نے حکومت کو بوکھلا دیا ہے۔ سکول بند کرنا تو کسی بھی حکومت کے لیے آسان ہدف ہوتا ہے، اسی لیے پہلے مرحلے میں سکول بند کیے گئے، اب بازار، شادی ہال، سینماءگھر، ریسٹورنٹ اور پارک غیرہ بند کرنے شروع ہوئے ہیں، لیکن اس پر بہت کم عمل درآمد ہو رہا ہے۔ سب سے بڑی رکاوٹ تاجروں کی ہے، جو رات 11 بجے سے پہلے بازار بند کرنے پر راضی نہیں، بڑی مشکل سے دس بجے تک اتفاق ہوا تھا، لیکن مریضوں کی تعداد میں تیزی سے ہونے والا اضافہ کی وجہ سے فیصلہ ہوا ہے کہ رات 8 بجے بازار بند کیے جائیں۔ لیکن اس پر عمل ناممکن ہی ہے ایک خبر کے مطابق پنجاب میں تمام ہسپتال مریضوں سے بھر گئے ہیں، کے پی میں بھی 70 فیصد بیڈ بھر چکے ہیں، اس صورت میں حکومت ویکسی نیشن بھی کر رہی ہے اور لاک ڈاو¿ن کی کیفیت بھی لا رہی ہے‘اس تشویشناک بحرانی حالات میں ویکسین کی نجی شعبے کے ذریعے مہنگی فروخت کرنے کی اجازت دینے سے حکومت کے اچھے اقدامات پر بھی سوال لگ گیا ہے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے ضروری اور جان بچانے والی ادویات کی قیمتوں میں حالیہ برسوں میں بہت اضافہ ہوا ہے‘ سب سے زیادہ اہم اور حساس معاملہ اینٹی کورونا ویکسین کی نجی درآمد اور اس کی قیمت فروخت کا تعین ہے، یہ ضروری ہے کہ عوام کو کم از کم قیمت پر ویکسین کی فراہمی یقینی بنائی جائے۔