دنیا میں جتنی بھی آرٹ گیلریز ہیں‘ عجائب گھر ہیں اگرچہ نوادرات اور عجائب اور تصاویر سے بھرے پڑے ہیں‘ ہرنوادر انمول‘ ہر عجائب گنگ کردینے والا اور ہر تصویر ایک شاہکار لیکن...ان سب عجائب گھروں اور آرٹ گیلریز کی وجہ شہرت اکثر ایک پیٹنگ‘ ایک مجسمہ یا کوئی ایک نوادر ہوتا ہے... مثلاً اپنے لاہور میوزیم کو دنیا بھر میں ” فاسٹنگ بدھا“ کے مجسمے کے حوالے سے پہچانا جاتا ہے‘ یہ ایک ایسا عجوبہ مجسمہ ہے کہ جب جاپان میں اسکی خصوصی نمائش کی گئی‘ حکومت پاکستان نے مہاتمابدھ کو عارضی طور پر ایکسپورٹ کردیا تو جاپان کے اس میوزیم کے باہر جہاں” فاسٹنگ بدھا“ براجمان کئے گئے تھے‘ جاپانی بدھ حضرات کی قطاریں لگ گئیں ویسے میری سٹڈی کے ایک شیلف میں بھی ایک ” فاسٹنگ بدھا“ کا مجسمہ براجمان ہے‘رائک میوزیم ایمسٹرڈیم کی سب سے قیمتی اور منافع بخش متاع ریمبرانت کی ” پوری دیوار پر آویزاں تصویر“ دے نائٹ واچ“ ہے... برلن سٹیٹ میوزیم میں بھی ریمبرانت کی پورٹریٹ“ آہنی خود پہنے ہوئے شخص‘ دیکھنے کیلئے ہجوم آتے ہیں... ایمسٹرڈیم میں ہی” فان خوخ میوزیم“ کی سب سے بڑی کشش” سورج مکھی کے پھول“ ہیں فلارنس کی اکیڈمی کی شہرت مائیکل انجلو کا دیوزاد مجسمہ” داﺅد“ ہے... کہاجاتا ہے کہ اگر آپ نے ”داﺅد“ نہیں دیکھا تو فلارنس نہیں دیکھا اور اگر فلارنس نہیں دیکھا تو دنیا نہیں دیکھی۔ میڈرڈ کے پراڈو میں اگرچہ دنیا بھر کے تصویری شاہکار آویزاںہیں روم کا ایک عالی شان چرچ گمنام رہتا اگر اس میں مائیکل انجلو کا تراشا ہوا مجسمہ نہ ہوتا ‘ یاد رہے کہ جب ایک مدت کی سنگ تراشی کے بعد نصف شب کی قربت میں یہ مجسمہ مکمل ہوا تو مائیکل انجلو نے اپنی جنوں خیزی میں مجسمے سے مخاطب ہو کر کہا ” بول تو ہی تو مکمل انسان ہے“ مجسمے کہاں بولتے ہیں چاہے وہ کسی کے بھی ہوں تو مائیکل انجلو نے طیش میں آکر اپنا تیشہ اس کے گھٹنے پر مار کر کہا’کہ بولتا کیوں نہیں“ جسکے نتیجے میں ایک مکمل مجسمہ داغدار ہوگیا... اس کے گھٹنے سے پتھر کی ایک چھال اتر گئی... تب میں نے اس گھٹنے کو چھو کر سوچا تھا کہ ہم سب لوگ جو حرفوں کے فریب سے کہانیوں‘ ناولوں اور سفرناموں کے مجسمے تراشتے ہیں‘ ہماری بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ یہ سب بولنے لگیں‘ کردار باتیں کریں اور باتوں سے خوشبو آئے اور جب وہ نہیں بولتے تو انہیں جلا دینا چاہتے ہیں...نیو یارک کے ’ موما‘ یعنی میوزیم آف ماڈرن آرٹ کی چھت سے ایک سرخ ہیلی کاپٹر لٹکا ہوا ہے جو کسی ویت نامی آرٹسٹ کا جدید شاہکار ہے... ان دنوں میرا بیٹا سمیر ہنوئی کے پاکستانی سفارتخانے میں ٹریڈ کونسلر کے عہدے پر فائز ہے‘ اس نے پچھلے ہفتے مجھے خبر کی کہ ابا آج میں ویت نام کے سب سے مشہور تخلیق کار کے ہاں رات کے کھانے پر مدعو ہوا تھا‘ آپ نے ’ موما‘ میں اس کا ہیلی کاپٹر تو دیکھا ہوگا...لیکن’ موما‘ کی اصل شہرت ایک جدید نہیں قدیم روایت کی حامل فان خوخ کی تصویر’سٹاری نائٹ‘ یا ’تاروں بھری رات‘ ہے یہ ایک جادوئی تصویر ہے... جو کوئی بھی اسے تادیر تکتا ہے وہ خود اس تاروں بھری رات کے اندر داخل ہوجاتا ہے اور پھر کبھی واپس نہیں آسکتا... میرے گلبرگ والے گھر کی سٹڈی کی دیواروں پر میرے پسندیدہ مصوروں کی تصویروں کے بڑے بڑے پرنٹ فریم شدہ سجے تھے... ان میں امریکی اینڈریو وہائتھ کے علاوہ پال گوگین‘ ڈالی‘ مانے کے علاوہ فان خوخ کی’ سٹاری نائٹ‘ کا پرنٹ بھی آویزاں تھا... میں ڈیفنس والے نئے گھر میں منتقل ہوا اور ابھی سامان شفٹ کررہا تھا کہ کسی شب چور حضرات اس گھر میں داخل ہوئے اور کچھ دستیاب نہ ہوا تو سٹڈی کی دیواروں پر آویزاں تصاویر اتار کرلے گئے‘ مجھے بہت قلق ہوا لیکن میں نے چوروں کے ذوق جمال کی بھی داد دی جو گوگین اور فان خوخ کے فن کے مداح تھے... چلئے اس تصویری قصے کو مختصر کرتے ہیں... پیرس کے میوزےم ’ لوور‘ میں ہزاروں شاہکار تصاویر اور مجسمے درجنوں ہالوں میں نمائش پر ہیں لیکن لوگ وہاں صرف’ مونا لیزا‘ کو دیکھنے کیلئے آتے ہیں... میں بھی’ پیار کا پہلا شہر‘ کے زمانوں میں تادیر اس تصویر کو تکتا رہا لیکن مجھ پر تو مونا لیزا کی مسکراہٹ کا کچھ اثر نہ ہوا...کہا جاتا ہے کہ خوش بختی ہر شخص کے دروازے پر کبھی نہ کبھی دستک دیتی ہے... اکثر وہ اسے ایک واہمہ سمجھتا ہے‘ دروازہ نہیں کھولتا... اسی طور ہر ملک کے حصے میں کم از کم ایک مونا لیزا آتی ہے وہ اسکی قدر کرے نہ کرے یہ الگ بات ہے... ہمارے حصے میں بھی افغان جنگ کے دوران 15برس کی ایک افغان مونا لیزا‘ شربت گلہ کی شکل میں آئی... ایک فوٹو گرافر نے اس کی تصویر اتاری اور دنیا بھر میںےہ تصویر افغان جنگ سے بے گھر ہوجانے والوں کی زبوں حالی کی نمائندہ ہوگئی... ’نیشنل جیوگرافک‘ کے سرورق پر طاہرہ سید کے بعد یہ شربت گلہ تھی جو سجائی گئی... میں نے نیو یارک کے ایک ریستوران کی پوری دیوار پر شربت گلہ کی یہ تصویر نقش دیکھی تھی‘ اسی فوٹو گرافر نے برسوں بعد اسی افغان مونا لیزا کو ڈھونڈھ نکالا پر اب وہ ایک بوڑھی عورت ہوچکی تھی‘ اس کا خاوند مرچکا تھا... وہ فوٹو گرافر اس تصویر کی عنایت سے بین الاقوامی سطح پر نامور ہوگیا‘ نہایت ثروت مند ہوگیا لیکن شکرانے کے طورپراس نے شربت گلہ کو ایک ڈالر بھی پیش نہ کیا‘ وہ غربت کی چکی میں پستی رہی ۔