کچھ لوگوں کی تجویز ہے کہ جمہوریت میں اس وقت تک بہتری نہیں آ سکتی کہ جب تک کسی بھی ملک میں دو جماعتی نظام نہ آ جائے۔جمہوری ممالک میں اگر دیکھا جائے تو اُس ملک میں ترقی کا گراف سب سے اونچا ہے کہ جہاں دو جماعتی نظام قائم ہے۔ دو جماعتی نظام میں سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ ایک جماعت ملکی نظام سنبھالتی ہے اور دوسری جماعت اس پر نظر رکھتی ہے کہ کہیں وہ راستہ بھٹک نہ جائے دونوں جماعتوں کا مقصد ملک کی ترقی ہی ہوتا ہے ۔ اگر حکومتی پارٹی سے کوئی غلطی ہو رہی ہو توحزب اختلا ف کی طرف سے اُس کو رکاوٹ کا سامنا کرنا ہوتا ہے اور وہ اپنا غلط اٹھایا ہوا قدم واپس کر لیتی ہے۔ یوں نظام میں کوئی خرابی نہیں آتی۔ اس کے مقابلے میں اگر نظام میں دو سے زیادہ جماعتیں حزب اختلاف میں ہوں تو اُن کی جانب سے حکومتی پارٹی کو صحیح مشورہ نہیں مل سکتا۔ اس لئے کہ اگر حزب اختلاف کی ایک جماعت سمجھتی ہے کہ حزب اقتدار کوئی غلط قدم اٹھا رہی ہے تو اس کو روکنے کےلئے حزب اختلاف کی ایک آواز نہیں ہوتی اور یوں حزب اقتدار کے غلط اٹھائے گئے قدم کو ٹھیک سمت میں لانے کےلئے ایک مشورہ نہیں مل سکتا اور یوں ایک غلط اٹھایا ہوا قدم ملک کے مفاد کے خلاف جا کر نقصان کا باعث بن سکتا ہے۔اس کے مقابلے میں اگر دو جماعتی نظام حکومت ہو تو حزب اختلاف ٹھیک مشورہ دے کر ملکی مفاد کے خلاف اٹھا ہو ا قدم روک سکتی ہے اور حکومتی پارٹی کو ٹھیک مشورہ دے کر ملکی مفاد کی حفاظت کر سکتی ہے ۔ ایک اور بات کہ اگر حکومتی پارٹی غلط اقدام سے ملک کی ترقی میں رکاوٹ کا سبب بنتی ہو تو اگلے انتخابات میں اُس کو گھربھی بھیجا جا سکتا ہے اور حزب اختلاف اُس کی جگہ لینے کےلئے تیار ہوتی ہے۔ اس لئے حزب اقتدار ہمیشہ پھونک پھونک کر قدم اٹھا تی ہے اور ملکی مفاد کے خلاف کوئی قدم نہیں اٹھاتی ۔یوں دو جماعتی نظام میں ہمیشہ خیر ہی کی خبر سامنے آتی ہے۔ جب کہ دو سے زیادہ جماعتیں اگر کسی ملک میں ہوں تو ایک تو اقتدار میں آ جائے گی مگر دوسری جماعتیں اُس کا اُ س طرح راستہ روک نہیں سکتیں جس طرح ایک جماعت روک سکتی ہے اس لئے کہ حزب اختلاف میں یوں ایک آواز نہیںآتی اور کچھ جماعتیں حکومت کے ساتھ ہو جاتی ہیں اور کچھ اس کے خلاف دیکھا یہ گیا ہے کہ جہاں بھی دو سے زیادہ جماعتیں کسی ملک کے جمہوری نظام میں ہیں وہاں عموماً ترقی کا وہ گراف نہیں رہا جو دو جماعتی نظام حکومت میں ہوتا ہے ایسے میں غیر جمہوری قوتوں کو موقع مل جاتا ہے چونکہ ہمارے ہاں ایک سے زیادہ جمہوری جماعتیں ہیں اسلئے ہمارے ہاں بہت دفعہ جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا ہے اور جب بھی جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا ہے تو کچھ جماعتوں نے یہ تاثر بھی دیا کہ بہت اچھا ہوا۔ اسی لئے ہمارے ہاں جمہوریت اُس طرح مضبوط نہیں ہوسکی جیسا کہ اُسے ہونا چاہئے تھا۔ ہمارے ہاں کتنی ہی دفعہ جمہوریت کو ڈی ریل کیا گیا مگر عوام کی طرف سے اس کو ہمیشہ خوش آمدید کہا گیا۔ اس لئے کہ عوام کی جمہوری سیاسی جماعتوں نے اس طرح تربیت ہی نہیں کی گئی کہ وہ جمہوریت کو ایک بہتر نظام مان سکیں اور اس کے دفاع کےلئے کھڑے ہو ں۔ملک میں بہت سی سیاسی جماعتیں ہیں جن کے اپنے اپنے منشور ہیں۔ عوام کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کس جماعت کا ساتھ دیں ‘سیاسی جماعتوں نے عوام کو جمہوریت کے فائدے دکھائے ہی نہیں کہ وہ جمہور کا ساتھ دیں کیونکہ سیاسی جماعتوں کا ایک جم غفیر اس ملک میں کام کر رہا ہے اس لئے عوام کو جمہوریت کا درس مل ہی نہیں سکا ۔ اگر یہاں بھی دو جماعتی سسٹم ہوتا تو کوئی نظام ڈی ریل کرنے کا سوچ بھی نہ سکے۔ دو جماعتی نظام میں ملک ترقی کی جانب تیزی سے گامزن ہو تا ہے اس لئے کہ حکومتی جماعت کو معلو م ہوتا ہے کہ اگر اُس نے پرفارم نہ کیا تو عوام اس کو گھر بھیج دیں گے۔