رویئے تبدیل کرنے کی ضرورت۔۔۔۔

 کورونا کا عفریت ایک بار پھر بے قابو ہو کر قریہ قریہ بستی بستی” آدم بو، آدم بو“ کی صدائیں لگا رہا ہے. فعال مریضوں کی تعداد 45 ہزار تک پہنچ گئی ہے، جبکہ مثبت ٹیسٹ کی شرح بھی اٹھارہ فیصد تک ہو گئی ہے۔ یہ صورتحال پہلی بار اس سطح تک آئی ہے۔ ملک بھر کے بڑے شہروں کے ہسپتال بھر چکے ہیں، نئے مریضوں کےلئے آکسیجن اور وینٹی لیٹرز کی کمی ہو رہی ہے۔ لاک ڈاو¿ن کی تیاریاں ہو رہی ہیں، لیکن سب کے باوجود ہم ہیں کہ صورتحال کو صحیح سمجھنے اور ضروری احتیاط کرنے کو تیار نہیں۔ حکومت کی ہدایات اور فیصلوں پر عمل کرانے میں انتظامی ادارے اس وقت تک کامیاب نہیں ہو سکتے، جب تک عوام تعاون نہ کریں‘ ہماری بدقسمتی ہے کہ ہم اپنی اور دوسروں کی جانوں کی اہمیت نہیں سمجھتے‘ صرف حکومتی پابندیاں توڑنے کو بہادری سمجھتے ہیں اور نقصان اٹھاتے ہیں اس کی مثالیں ہماری روزمرہ زندگی کا معمول ہیں۔ کئی مصروف شاہراہوں پر پیدل کراس کرنے والوں کو حادثات سے بچانے کےلئے اوور ہیڈ برج بنائے جاتے ہیں، لیکن لوگوں کو یہ کراسنگ استعمال کرنے پر مجبور کرنے کےلئے بھی سڑک کے متوازی لوہے کی سلاخیں لگا کر راستہ بند کرنا پڑتا ہے‘ اس کے باوجود لوگ یہ سلاخیں کاٹ کر، یا ٹیڑھی کر کے نکلنے کی جگہ بنا لیتے ہیں، جو زیادہ خطرناک ہوتا ہے، لیکن پل پر سے گزرنے سے حتی لامکان بھاگتے ہیں۔ کچھ ایسی ہی صورتحال ہیلمٹ پہننے اور سیٹ بیلٹ باندھنے کی ہے اس رویہ کو دیکھتے ہوئے اگر لوگ کورونا ایس او پیز پر عمل کرنے کو بزدلی اور احتیاطی پابندیاں توڑنا بہادری سمجھتے ہیں تو یہ کوئی انہونی نہیں۔قواعد کی پابندی کرنا ہماری تعلیم اور تربیت میں بھی شامل نہیں ہے اور جو جتنا بڑا عہدیدار ہو، اس عہدے اور طاقت کا اظہار قانون توڑنے سے کرتا ہے۔ ہماری یہ عادت ایک بھیانک غلطی ثابت ہو رہی ہے۔ پاکستان ان ممالک میں سرفہرست تھا، جہاں کورونا مریضوں کی تعداد میں کمی ہو رہی تھی اور اسی وجہ سے تعلیمی اداروں کو کھولنے سمیت بازار، شادی ہال اور دیگر اجتماعی سرگرمیوں کے مراکز کھولنے کی اجازت دی گئی تھی، لیکن اس کے منفی نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں اور اب ایک بار پھر حکومت لاک ڈاو¿ن کرنے پر مجبور ہوگئی ہے حالانکہ زبردستی پابندیاں لگانا ہمارے ہاں پولیس اور انتظامیہ کےلئے بھی آسان نہیں رہتا، لوگ اس کی باقاعدہ مزاحمت کرتے ہیں۔گزشتہ سال سے یورپ اور امریکہ سمیت ساری دنیا میں لاک ڈاو¿ن رہا لیکن کسی ملک میں پابندیوں پر عمل کرانے کےلئے پولیس کی ضرورت نہیں پڑی، جبکہ ہمارے ہاں دکان بند کروانے کےلئے بھی پولیس بھیجنا پڑتی ہے اور عام طور پر وہ بھی ناکام واپس لوٹتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ جن عوام کی حفاظت کےلئے یہ پابندیاں لگائی جاتی ہیں، وہی پولیس سے مزاحمت کےلئے جمع ہو جاتے ہیں، ان ہی سماج دشمن رویوں کی وجہ سے حکومت مزید پابندیاں لگانے پر مجبور ہے، پنجاب حکومت نے تو ماسک نہ پہننے والوں کو گرفتار کرنے اور سزا دینے کا فیصلہ کر لیا ہے، جبکہ پانچ اپریل سے شادی بیاہ سمیت ہر قسم کی سماجی و سیاسی اجتماعات پر پابندی لگانے کا فیصلہ ہوگیا ہے۔ گزشتہ روز وزیر اعظم نے خصوصی پیغام میں عوام سے ایس او پیز پر عمل کرنے کی اپیل کی ہے، انہوں نے خود اعتراف کیا ہے کہ سینٹ کے چیئرمین کے الیکشن میں احتیاط نہ کرنے پر وہ کورونا سے متاثر ہوگئے تھے، ہم سیاسی قیادت سے سنجیدہ رویہ اپنانے اور عوام کی جانوں سے کھیلنے والے اجتماعات منسوخ کرنے کی توقع ہی کر سکتے ہیں۔ اس حوالے سے پیپلز پارٹی نے مثبت فیصلہ کیا اور بانی چیئرمین ذوالفقار علی بھٹو کی برسی پر طے شدہ جلسہ منسوخ کر دیا، لیکن جماعت اسلامی نے راولپنڈی میں جلسہ اور کراچی میں ریلی نکال کر غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کیا ہے، موجودہ حالات میں ان اجتماعات کے مضر اثرات سامنے آ سکتے ہیں۔ اگرچہ پی ڈی ایم کی سیاسی مصروفیات ابھی معطل ہیں اور زیادہ زور بیانات پر ہے، لیکن اس کے باوجود دو بڑے رہنما مولانا فضل الرحمان اور مریم نواز علیل ہو گئے ہیں، ان کے کورونا ٹیسٹ منفی آئے ہیں، لیکن بخار اور زکام کی شدت کے باعث دونوں ہی گھر تک محدود ہوگئے ہیں، اس کے بعد توقع کرنی چاہیے کہ پی ڈی ایم اپنی حکومت مخالف تحریک کو پارلیمنٹ تک لے آئے گی۔ کورونا کی موجودہ لہر ایک قہر بن چکی ہے، پہلی بار بڑی تعداد میں بچے بھی متاثر ہو رہے ہیں، یہ خطرناک علامت ہے، اس لئے نہ صرف خود کو رش والے مقامات پر جانے سے روکنا ہے، بلکہ بچوں کو بھی گھروں میں محدود کرنا ہوگا۔ پرائیویٹ سکول مالکان بضد ہیں کہ سکول کھولیں گے، حالانکہ سکول بند کر کے بھی وہ فیس وصول کر رہے ہیں، معصوم بچوں اور طلبہ کا تعلیمی نقصان ایک الگ المیہ ہے ،لیکن جان کی حفاظت بہرحال مقدم ہے، سکول مالکان کو حکومتی اقدامات پر عمل کرتے ہوئے سکول بند رکھنا چاہئے۔