حادثات۔۔۔

جب بھی ٹی وی خبروں کےلئے کھولتے ہیں تو پہلی خبر یہ سنائی دیتی ہے کہ فلاںجگہ بس اورٹرک میں تصادم ہوا اور اتنے لوگ اللہ کو پیارے ہو گئے اور اتنے زخمی ہیں جن کو ہسپتال پہنچا دیا گیا ہے۔ جن میں اِتنوں کی حالت نازک ہے ۔ اب پھر یہ معلوم کرنے کا وقت ہی نہیں ہوتا کہ زخمیوں کا کیا بنا اس لئے کہ دوسرے دن اور ایک خوفناک حادثے کا اعلان ہو چکا ہوتا ہے۔ اخبار کھولو تو پہلے صفحے سے لے کر آخری صفحے تک کسی نہ کسی حادثے کی خبر ہی نظر سے گزرتی ہے۔ ایسا کیوں ہوتا ہے کہ سڑکیں عموماً دو رویہ ہو چکی ہوئی ہیں۔ بسیں اور دیگر سواریاں بھی عموماًنئی اور قابل بھروسا ہیں ۔ ڈرائیور بھی عموماً ماہر ہی ہوتے ہیں ۔ لمبے روٹوں پر تو عام طور پر دو ماہر ڈرایﺅر بس کے ساتھ ہوتے ہیں تا کہ اگر ایک تھک جاتا ہے تو دوسرا ُس کی جگہ لے لے تا کہ سواریوں کو آرام سے اُن کی منزل تک پہنچایا جا سکے۔ دو رویہ سڑکوںکی وجہ سے اگر رفتار کچھ زیادہ بھی ہو تو گاڑی ڈرایﺅر کے قابو میں ہی رہتی ہے اس لئے کہ اُس کو سامنے سے آنے والی کسی دوسری بس یا ٹرک سے اپنی گاڑی کو بچانا نہیں ہوتا ۔ اس کے باوجود روزانہ بیسیوں لوگ ان گاڑیوں کے حاد ثات میں جان سے چلے جاتے ہیں۔ لمبے روٹوں پر تو عام طور پر گاڑیاں ماہر ڈرایﺅروں کو ہی سونپی جاتی ہیں اور دو ڈرایﺅروں کی موجودگی بھی اس بات کی غماز ہے کہ گاڑی کا مالک سواریوں کو بحفاظت اپنے مقام تک پہنچانے کا متمنی ہوتا ہے۔ اس کے باوجودحادثات میں بیسیوںلوگ کیوں اپنی جان گنوا دیتے ہیں۔ پہاڑی علاقوں کی بات ذرا الگ ہے ۔ ان میں گو کہ سڑکیں چوڑی ہیں مگر عام طور پر دو رویہ نہیں ہیں اس لئے کہ ان علاقوں میں اتنی گنجائش ہی نہیں ہوتی کہ سڑکوں کو دو رویہ کیاجا سکے اس کے باوجود جن علاقوں میں ٹریفک زیادہ ہونے کا امکان ہوتا ہے وہاں سڑکیں دو رویہ ہیں سواریوں کو بھی اس بات کا خیال کرنا چاہئے کہ ڈرائیور کو تیز رفتاری پر مجبور نہ کریں ۔ڈرایﺅر بہتر جانتا ہے کہ اُس نے گاڑی کو کیسے چلانا ہے۔ جب سواریاں اُسے تیزی پر مجبور کریں گی تو یہ حادثے کا سبب بن سکتا ہے۔ ہم ایک دفعہ راولپنڈی سے ایبٹ آباد آ رہے تھے کہ بس میں کچھ نوجوان بھی سوار تھے۔ ڈرایﺅر محتاط انداز سے گاڑی چلا رہاتھا۔ اس کی رفتار نہ اتنی تیز تھی کہ حادثے کا ڈر ہو اور نہ اتنی کم تھی کہ منزل تک پہنچتے پہنچتے شام ہو جاتی ۔ بس میں بیٹھے کچھ نوجوان بار بارپر ڈرایﺅر پر طنز کر رہے تھے کہ وہ گاڑی کو تیز کیوں نہیںچلا رہا۔ ہم جب حسن ابدال سے آگے نکلے تو لڑکوں کے طنز ڈرایﺅر کی برداشت سے باہر ہو گئے ۔ اُس نے گاڑی کنارے پر لگائی اور طنز کرنے والے بچوںکو بس سے نیچے اتار دیا اور کہا کہ وہ کسی ایسی بس پر آ جائیں کہ کو ان کو ہوا کی رفتار سے لائے۔ اب تو بچوں کے ہوش اڑ گئے اس لئے کہ جس جگہ پر اُس نے لڑکوں کو اتارا تھا وہ بالکل ویران تھی۔ اب تو وہ ڈرایﺅر کی منتیں کر رہے تھے کہ وہ خاموشی سے سفر کریں گے۔مگر ڈرایﺅر نے کہا کہ اس کے ساتھ چالیس اور لوگ بھی لوگ بیٹھے ہیں وہ ان کی جان تو نہیںلے سکتا اس لئے وہ لڑکوں کو ساتھ نہیں لے جائے گا۔ لڑکے منتیں کر رہے تھے کہ وہ اب خاموشی سے جائیں گے مگر ڈرایﺅر بضد تھا کہ وہ ان کو نہیں لے جائے گا۔ خیر سواریوں نے بیچ بچاو¿ کیا اور لڑکوں نے وعدہ کیا کہ وہ خاموشی سے سفر کریں گے۔ حادثات کی ایک بڑی وجہ یہ بھی ہے کہ سواریاں ڈرایﺅر کو تیز رفتاری پر مجبور کرتی ہیںاگر ڈرائیور اپنی سمجھ کے مطابق چلے توحادثات نہ ہونے کے برابر ہوں۔ بعض دفعہ ڈرائیور ایک دوسرے کے مقابلے میں آ جاتے ہیںاور ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرتے ہیں جو حادثات کی وجہ بن جاتی ہے۔