تیسری لہر۔۔۔۔۔

کورونا نے اپنے پنجے ایسے گاڑے ہیں کہ کسی طرح بھی ٹلنے کا نام نہیں لے رہا۔ ایک حملہ ختم ہونے والا ہی ہوتا ہے تو دوسرا حملہ شروع ہو جاتا ہے اور یہ حملہ پہلے سے بھی سخت ہو تا ہے۔ اس دوران شاید ہمارے حکماءاس کا علاج تلاش کرنے میںلگے ہوئے ہیں مگر ہو یہ رہاہے کہ ادھر کوئی علاج تلاش ہونے والا ہی ہوتا ہے کہ دوسرا حملہ شروع ہو جاتا ہے اور ہر حملہ پہلے سے زیادہ سخت ہوتا ہے اور پہلے سے زیادہ زندگیوں کو اس دنیا سے رخصت کر دیتا ہے۔ اب ہم تیسرے حملے میں سے گزر رہے ہیں جس نے اور بھی سختی کا اظہار کر دیا ہے۔ ادھر اس کا علاج تو کوئی نہیں ہے بس اس سے خود کو بچانا ہے اس کا علاج تجویز کیا جا رہا ہے۔ مگر سوا ل یہ ہے کہ ایک مزدور گھر میں بیٹھ جائے گا تو کھائے گا کہاں سے۔ اسلئے اُس کو تو اپنی روزی روٹی کےلئے باہر نکلنا ہی نکلناہے اور اس کا جو نتیجہ نکل رہا ہے وہ بھی سب کے سامنے ہے کہ اس بیماری سے متاثر ہونے والوں کی تعداد میں روز برو زاضافہ ہو رہا ہے۔ ابھی تک ہم اس سے بچنے کاکوئی ایسا طریقہ دریافت نہیں کر پائے کہ ہماری روز مرہ کی زندگی پر بھی اثر نہ پڑے اور اس بلاءسے جان بھی چھوٹ جائے۔ جس ملک کے ننانو فی صد لوگ ایسے ہیں کہ جن کو دو وقت کی روٹی کےلئے گھر سے باہر جانا ہی جانا ہے ۔ چاہے وہ کوئی سرکاری ملازم ہے ، کوئی مزدور ہے یا کوئی کسان ہے اُس کیلئے تو گھرمیں بیٹھ کر بچوں کا پیٹ پالنے کی کوئی صورت نہیں ہے اور اگر وہ باہر جاتا ہے تو کورونا اُس کی تاک میںبیٹھا ہوتا ہے۔ یعنی نہ توانسان گھر بیٹھ سکتا ہے اور نہ باہر جانے کے کوئی مواقع ہیں ایک ایسی بلا سے ہمارا پالا پڑ ا ہے کہ جس نے ہمیں کہیںکا نہیں چھوڑا۔گو کہ ہم لوگ اپنے روز مرہ کے معمول کو اسی طریقے سے جاری رکھے ہوئے ہےں،مگر اس کا نتیجہ بھی آ رہا ہے کہ ہسپتالوں میں مریضوں کے لئے کو ئی بستر ہی خالی نہیں ہے۔ ڈاکٹرجو دن رات مریضوں کی دیکھ بھال میں لگے ہوئے ہیں وہ بھی اس موذی مرض کا شکار ہو رہے ہیں اور آج تک بہت سے ڈاکٹر اس کی وجہ سے اس دنیا سے ہی رخصت ہو چکے ہیں۔ مگر ابھی تک اس کا کوئی شافی علاج نہیں مل سکا ۔ اللہ کرے کہ اس بلا کا کوئی شافی علاج مل جائے تا کہ دنیا اس سے محفوظ ہو سکے۔ اب ہمارے معاشرے میں ایسا بھی ممکن نہیںہے کہ ہم کسی بھی مریض کو اکیلا چھوڑ دیں۔ اگر آپ ہسپتالوں میں جائیں تو ایک ایک مریض کی بیمار پرسی کو پورا پورا گاو¿ں آیا ہوا ہوتا ہے۔ ڈاکٹر اور ہسپتال کا عملہ ان سے بیزار تو ہوتا ہے مگر پرسا کرنے والے بھی جان چھوڑنے والے نہیں ہوتے۔ اب اس مرض کا یہ ہے کہ آپ جتنی بھی مریض کی قربت اختیار کریں گے اتنا ہی آپ اس مرض سے متاثر ہوں گے اور بھی متعدی امراض ایسے ہیں کہ جن کےلئے مریض سے دوری اختیار کرنی ہوتی ہے مگر وہ پھر بھی انسان کو اتنا متاثر نہیں کرتے جتنا کہ یہ موذی مرض ساتھ والوں کو اپنی لپیٹ میں لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس مرض کا پھیلاو¿ بہت زیادہ ہے۔ کئی متعدی بیماریاں ایسی ہوتی ہیں کہ اس میں عیادت کرنے والوں پر بھی مرض اُسی طرح حملہ آور ہوتا ہے کہ جیسے وہ بیمار پر ہوا ہے ۔ اسلئے کورونا کے مریضوں کی عیادت سے خود کو باز ہی رکھیں تو بہتر ہے مگر ہماری سوسائٹی کا یہ طرز عمل ہے کہ اگر کوئی شخص کسی بیمار کی عیادت کو نہیں آ رہا تو اس کے ساتھ زندگی بھر کی خفگی بھی ہو سکتی ہے اس لئے ہمیں مریض کی عیادت بھی ضرور ہی کرنی ہے اور اگر مریض کرونا کا ہے تو اس کا مطلب کہ ہم خود بھی اُس سے یہ مرض اپنے لئے لے کر جا رہے ہیں۔ ادھر اس کا کوئی شافی علاج بھی نہیں ہے اور اس بنا پر اسکے مریضوں میں روز افزوں اضافہ ہو رہا ہے۔ دوسری بڑی وجہ یہ ہے کہ ہم لوگ اس کو ابھی تک مرض ماننے کو ہی تیار نہیں ہیں اور اسلئے ہم اس سے بچاو¿ کی تدابیر اختیار کرنے کو تیار نہیںہیںکہ جو حکومت اور ڈاکٹر ہمیں بتا رہے ہیں۔ اس کے بعد کس سے گلہ کریں کہ ہماری دیکھ بھال نہیں ہو رہی۔ اگر ہم اس سے بچاو¿ کی تدابیر پر پوری طرح عمل درآمد کریں تو یقین ہے کہ ہم اس مرض پر قابو پا سکتے ہیں۔