پاکستان میں فرینڈلی اپوزیشن پہلی بار سامنے نہیں آئی، مختلف ادوار میں، مختلف سیاستدان یہ فرض نبھاتے رہے۔ جہاں تک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے باہمی تعلقات کی بات ہے تو یہ دونوں ایک دوسرے کے بغیر بھی نہیں رہ سکتیں اور ایک دوسرے کے ساتھ ہاتھ بھی کرتی رہتی ہیں، دونوں کو معلوم ہے کہ ان کی بقا اور سیاست ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہے، جب میاں نواز شریف جدہ میں جلا وطنی کی زندگی گزار رہے تھے تو محترمہ بے نظیر بھٹو نے سرور پیلس میں ان سے ملاقات کی اور دونوں نے پاکستان کی عوام کو یہ تاثر دیا کہ وہ دونوں اب بہت کچھ سیکھ چکے ہیں اور آئندہ سیاست میں برداشت اور سنجیدگی کو فروغ دیں گے۔ پھر 2006 میں لندن میں ہونے والے میثاق جمہوریت نے تو اس بات کی تصدیق کردی کہ دونوں حقیقی جمہوریت کےلئے مل کر کام کریں گے، لیکن ابھی اس میثاق کی سیاہی بھی خشک نہیں ہوئی تھی کہ ان کے راستے پھر جدا ہونے لگے۔ایک دوسرے کی آڑ میں دونوں وطن واپس آ گئے، لیکن محترمہ بینظیر بھٹو دہشت گردی کا شکار ہوگئیں۔ ان کی شہادت نے الیکشن میں پیپلز پارٹی کو اقتدار دلوایا اور نئے چیئرمین آصف زرداری نے مسلم لیگ نون کے ساتھ مل کر حکومت بنائی، نوازشریف نے پیپلز پارٹی سے مل کر اپنے لئے تیسری بار وزیر اعظم بننے کی آئینی رکاوٹ ختم کرنی تھی، اس لیے صدر پرویز مشرف کو بھی قبول کرلیا، پھر اٹھارویں ترمیم کے ذریعے نواز شریف نے اپنے اقتدار کا راستہ صاف کیا اور آصف زرداری نے صوبائی خود مختاری کے نام پر صوبوں کو وسیع مالی اختیارات دلوائے، اس کے بعد دونوں الگ ہو گئے اور ایک دوسرے کے خلاف دھواں دار الیکشن مہم چلائی۔ 2013 میں مسلم لیگ نون نے حکومت بنائی تو تحریک انصاف نے دھاندلی کا الزام لگا کر تحریک شروع کر دی، عمران خان کے طویل ترین دھرنے میں نواز شریف حکومت کمزور اور گرنے کے قریب تھی تو پیپلزپارٹی نے سہارا دیا اور نواز شریف بچ گئے، جب پانامہ لیکس کا مقدمہ چل رہا تھا تو بھی پیپلز پارٹی نواز شریف کے ساتھ کھڑی تھی۔ 2018 کے الیکشن میں تحریک انصاف کامیاب ہوئی تو دونوں سابق حکمران پارٹیوں کے درمیان قربتیں بڑھنے لگیں، مگر اس کے باوجود پپلز پارٹی نے شہباز شریف کو وزیراعظم کا ووٹ نہیں دیا، اور چیئرمین سینٹ کےلئے بھی مسلم لیگ نون کی مخالفت کرکے مخالف امیدوار کو چیئرمین بنوا دیا۔ دونوں جماعتوں نے اڑھائی سال مل کر اپوزیشن کی، پی ڈی ایم میں شانہ بشانہ رہیں، سینٹ الیکشن میں پیپلز پارٹی نے مسلم لیگ نون کے ووٹوں کے باعث قومی اسمبلی سے اپنا امیدوار سینیٹر بنوا کر بڑا اپ سیٹ کیا، مگر چیئرمین کے الیکشن میں مسلم لیگ کے سینیٹرز نے پیپلز پارٹی کے امیدوار کو کامیاب نہیں ہونے دیا تو پیپلز پارٹی نے اپوزیشن لیڈر کےلئے مسلم لیگ کے ساتھ ہاتھ کر دیا۔ اب نون لیگ الزام لگا رہی ہے کہ پی پی نے حکومت اتحاد سے مدد لے کر فرینڈلی اپوزیشن کا کردار چنا ہے، جبکہ پی پی کا کہنا ہے کہ نون لیگ نے محترمہ بے نظیر بھٹو کے قاتلوں کے وکیل کو اپوزیشن لیڈر نامزد کرکے مایوس کیا، اصل معاملہ حکومت سے اپنے لئے آسانیاں حاصل کرنے کی دوڑ ہے اور ایک دوسرے کو استعمال کرنے کی کوشش ہے، اس میں جس کا جتنا داو¿ لگ گیا، وہی کامیاب سیاستدان ہے۔