دنیا کورونا کی زد میں۔۔۔۔

جب بھی کوئی آفت اس دنیا پر حملہ آور ہوئی ہے تو اس کامقابلہ کرتے کرتے بہت سی انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا آیا ہے۔ مگر انسان نے کبھی بھی ہار نہیں مانی اور ان آفات کو ختم کر کے ہی دم لیا ہے۔ طاعون ،ملیریا اور ٹایئفائڈ وغیر ایسی آفات تھیں کہ جب حملہ آور ہوئیں تودنوں میں ایک بڑی آبادی کوختم کر ڈالا ۔ مگر انسان نے ان بیماریوں کو ختم کرکے ہی دم لیا ۔ اب کچھ بیماریاں تو ایسی ہیں کہ جن کا اس دنیا میں نام و نشان بھی نہیںہے مگر اپنے وقت پر ان بیماریوں نے انسانی جانوں کا بہت بڑا نقصان کیا ۔ جب بھی کوئی آفت آتی ہے انسان اپنی ساری قوتیں اس کے خلاف استعما ل کرنا شروع کر دیتا ہے ۔ اور پوری تن دہی سے اس کے خاتمے کی صورتیں نکالتا ہے۔ آج دنیا جس بڑی آفت کی زد میں ہے وہ کورونا ہے۔ اس بیماری نے تو دنیا میں انسانی جانون کا ضیاع جو کیا سو کیا مگر اس نے معیشت کا بیڑا غرق کر دیا ہے ۔ اس بیماری کی وجہ سے لوگ گھر میں بند ہو کر رہ گئے ہیں۔ اور اگر لوگ گھروں میں بند ہوں گے تو ظاہر ہے کہ پھر معیشت کا پہیہ کیسے چلے گا اور اگر معیشت کا پیہہ بند ہو گیا تو پھر انسانی زندگی پر جو اثر پڑے گا اس کو اندازہ کیا ہی جا سکتا ہے ہماری دنیا میں ایسی ہی اس آفت نے حملہ کر رکھا ہے کہ جس نے آبادیوں کو گھروں میں بند کر کے رکھ دیا ہے جس سے کارخانوں کا پہیہ بند ہو گیا ہے۔ زراعت پر بھی اس کا بہت برا اثر بڑا ہے۔ جب دنیا میں زراعت میں کمی آ جائے گی اور فیکٹریوں کی مشینیںخاموش ہو جائینگی تو انسانی ضروریات کی اشیاءناپید ہو جائیںگی او ر یوں انسانیت پر جو اثر ہو گا اس کا سوچ کر ہی ہول آتے ہیں۔ یہ آفت ایسی ہے کہ جس کےلئے ابھی تک سائنس دان کوئی دوا تجویز نہیں کر سکے اور نہ کوئی ایسا طریقہ ایجاد کر سکے ہیںکہ جو اس آفت کو ٹال سکیں ۔ ادھر اس بیماری نے انسانوں کا گھروں میں مقید کر کے رکھ دیا ہے۔ جو بھی گھر سے باہر نکلتا ہے اس کا کورونا استقبال کو باہرکھڑا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہا گیا ہے کہ اس بیمار سے بچنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ خود کو قرنطینہ کر لیا جائے۔ لیکن اگر ساری دنیا ہی قرنطینہ کر لے گی تو دنیا کا نظام کیسے چلے گا دیکھا یہ گیا ہے کہ جس بھی شہر میں یا علاقے میںکوئی بیماری آتی ے اُس کے علاج کےلئے اللہ نے اُس علاقے میں ایسی بوٹیاں پید اکرلی ہوتی ہیں کہ جو ان کاعلاج ہے۔ اللہ کرے کہ اس کورونا کا بھی کوئی شافی علاج جلد دریافت کر لیا جائے۔بس اس با ت کا خیال رکھا جائے کہ جس علاقے میں کوئی بیماری ہوتی ہے اُس ا علاج بھی اُسی علاقے میں ہوتا ہے اور جب تک علاج دریافت نہیں ہوتا تو ہمیں احتیاطی تدابیر پرعمل کرنا چاہئے اور اس کو مذاق نہیں بنانا چاہئے۔ کورونا کے متاثرین تو اب تقریباً ہر جگہ موجو دہیں جو لوگ پہلے اس پر یقین نہیں کر رہے تھے اب انہوںنے بھی اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے کہ یہ بیماری کس قدر خطرناک ہے۔ہجوم کی جگہ پر جان سے گریز اور ممکنہ حد تک اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھنا اس بیماری کے تدارک میں اہم ہے ۔ کیونکہ اس وقت علاج موجود نہیں اسلئے احتیاط اور پرہیز ہی بہتر پالیسی ہے۔