مغرب اور امریکہ میں ہی نہیں پاکستان میں بھی لوگوں کو کمپیوٹر یا آئی پیڈ کی لت لگ چکی ہے‘ جہاں دیکھئے لوگ آئی پیڈ نہ سہی اپنے موبائل کو آنکھوں کےساتھ لگائے یا تو پیغام روانہ کررہے ہیں اور یا پھر گیمز کھیل رہے ہیں... یہاں تک کہ پارک میں صبح کی سیر کرتے ہوئے بھی موبائل کیساتھ کھیلا جا رہاہے‘ڈرائیونگ کرتے ہوئے‘شادیوں میں‘ جنازے کےساتھ چلتے ہوئے‘کسی شاندار جھیل کنارے‘ یہ موبائل ہے جو ہماری آنکھوں کے ساتھ چپک گیا ہے‘ میں اور کسی کی کیا شکایت کروں میری اہلیہ محترمہ بیک وقت ٹیلی ویژن دیکھ رہی ہے اپنے آئی پیڈ پر گیمیں کھیل رہی ہیں اور موبائل پر بچوں سے باتیں بھی کرتی جاتی ہے اور اگر مجھے کچھ کہنا ہے تو آئی پیڈ کو مخاطب کرکے کہتی ہے... کہئے کہئے میں سن رہی ہوں‘ مغرب میں کمپیوٹر میں فنا لوگوں کی بیویوں کو کمپیوٹر’ وڈوز‘ یا کمپیوٹر کی بیوائیں کہاجاتا ہے اور میں اقرار کرتا ہوں کہ میں بھی رنڈوا تو نہیں ایک کمپیوٹر بیوہ ہو چکا ہوں...اہلیہ بات نہیں کرتی تو دیواروں سے باتیں کرنا اچھا لگتا ہے ہم ابھی پاگل ہو جائینگے ایسا لگتا ہے‘ لیکن میں اپنی بیگم کو مورد الزام نہیں ٹھہراتا کہ اسکے کانوں میں ہر وقت جوشائیں شائیں ہوتی ہے‘ جیسے ایک چکی گھوم رہی ہے تو آئی پیڈ اسے اپنی بیماری کچھ دیر کیلئے بھلا دیتا ہے اور جب میں اس سے کچھ کہنے کیلئے اسکے قریب کچھ دیر کھڑا رہتا ہوں اور وہ میری جانب نگاہ نہیں کرتی تو میں اسے ذرا بلند آواز میں پکارتا ہوں تو وہ یکدم ٹھٹک کر کہ وہ بہت مگن ہوتی ہے ایک بچے کی سی شرمندہ مسکراہٹ کےساتھ میری جانب دیکھتی ہے...میں نے نہ صرف ایک مرتبہ کمپیوٹر کی دنیا میں اترنے کی کوشش کی تھی اور یہ ایک ایسی حیرت انگیز‘ سحر طراز معلوماتی دنیا تھی کہ میں اس میں غرق ہوگیا...کسی مغربی مصنف نے کہا تھا کہ یہ جو گوگل ہے یہ ایک ایسا مکینکی دےوتا ہے جس سے جو جی میں آئے پوچھ لو ‘بہرطور میں تو کمپیوٹر کے قریب بھی نہیں پھٹکتا... سائبیریا کے ویران جنگلوں میں آگافیا نام کی ایک ستر برس کی عورت تنہا رہتی ہے‘ ایک معصومیت اور بے چارگی اسکے بوڑھے چہرے پر مسلسل مسکراہٹ کی صورت پھیلتی ہے‘ اسکے جھونپڑے میں ظاہر ہے بجلی نہیں ہے وہ لکڑیوں کو رگڑ کر آگ جلاتی ہے نزدیکی ندی میں سے پکڑی جانےوالی مچھلیاں بھونتی ہے... سبزیاںخود اکیلے کاشت کرتی ہے اور فخر سے کہتی ہے اس برس میں نے اتنے آلو اگائے کہ ایک سوپچاس ٹوکریاں بھرگئیں‘ درختوں کی جڑوں کا سوپ بناتی ہے‘ رات کو الاﺅ کی روشنی میں اپنے ہاتھوں سے تعمیر کردہ لکڑی کے جھونپڑے میں سر پر رومال باندھ کر مطالعہ کرتی ہے‘ وہ کیسے ان ویرانوں میں آگئی‘ سائبیریا کے ظالم برفانی موسموں میں آگئی...1936 میں اسکے ماں باپ جو کٹرعیسائی تھے‘ کمیونسٹ نظام سے فرار ہو کر سائبیریا کے آخری کونے میں واقع جنگلوں میں پناہ گزیں ہوگئے...ان جنگلوں تک کسی انسان کی رسائی نہ تھی... وہ یہاں جھونپڑا تعمیر کرکے زندگی کرنے لگے... آگافیا اسی ویرانے میں پیدا ہوئی پلی بڑھی... ماں باپ مرگئے تو انہیں اپنے ہاتھوں سے قبر کھود کر دفن کیا اور انکے سرہانے لکڑی کی صلےبیں آویزاں کردیں1978 میں ان علاقوں میں سے جیالوجی کے ماہرین کی ایک ٹیم کا گزر ہوا تو یہ خاندان دریافت ہوگیا‘ آگافیا نے زندگی میں پہلی بار اس ٹیم کے ہمراہ کتے دیکھے‘ اور وہ خوفزدہ ہوگئی کہ یہ کیا جانور ہے... اب تو دور دور سے صحافی اور محقق اسکا انٹرویو کرنے آتے ہیں... اسے متعدد بار پیشکش کی گئی ہے کہ وہ نزدیکی گاﺅں جو وہاں سے دو ہفتے کی پیدل مسافت پر واقع ہے وہاں شفٹ ہو جائے لیکن آگافیا ایک مرتبہ گئی اورپھر واپس اپنی” سوبرس کی تنہائی“ میں لوٹ آئی کہ نہیں‘ وہاں شور بہت ہے‘ دھواں بہت ہے اور کاروں کی گونج ہے...آگافیا آج بھی اپنی کھڈی پر اپنا پیراہن بنتی ہے‘ مچھلیاں پکڑتی ہے‘ آلو اگاتی ہے ... انسان کو اگر چہ ایک سوشل اینیمل کہاگیاہے لیکن اس جانور کے اندر ہمیشہ سے دنیا جہان سے الگ ہو کر ایک بڑی تنہائی میں زندگی بسر کرنے کی خواہش ہوتی ہے‘ کپل وستو کا شہزادہ گوتم اپنے محل مینارے اور عیش کی زندگی ترک کرکے جنگلوں میں گم ہوکر گیان دھیان میں تنہا ہو جاتا ہے... انسانوں کے میلوں ٹھیلوں اور ہجوم میں آپ سوچ نہیں سکتے ان میں شامل ہو کر ضائع ہوتے جاتے ہیں ‘ ہر شخص دنیا کے جھمیلوں میں گرفتار خواہش کرتا ہے کہ کبھی تو وہ تنہا ہو جائے... پہلو میں کوہ کے اک چھوٹا سا جھونپڑا ہو... ندی کا صاف پانی تصویر لے رہا ہو ہر شخص کی خواہش ہوتی ہے میں نے بھی اپنی سیاحتوں اور کوہ نوردیوں کے دوران اپنے ساتھیوں کو شریک نہ کرتے ہوئے کسی ایسے ہی جھونپڑے کی خواہش کی‘ جہاں منتقل ہو کر میں تنہا ہو جاﺅں... کبھی”سنولیک“کے راستے میں ایک شکاری جھونپڑے میں‘ کبھی تہذیب کے آخری گاﺅں اشکولے کے آخری پتھریلے مکان میں‘ کبھی کے ٹوکے دامن میں واقع کسی برفانی کوہ میں کبھی حراموش کی چراگاہ کے ایک چٹان میں کھدے ہوئے کمرے میں... یہ ان دنوں کا قصہ ہے جب نانگا پربت کے دامن میں واقع فیری میڈو... پریوں کی چراگاہ تک کوئی کوئی پہنچتا تھا‘ پاکستانی تو کوئی نہ پہنچتا تھا جب میں پہنچ گیا‘ فیری میڈو کے پرنس رحمت نبی سے میں نے کہاکہ رحمت... کیا یہ ممکن ہے کہ میں نانگا پربت کے دامن میں ایک جھونپڑا بناکر یہیں قیام کر جاﺅں تو اس نے کہا تھا... تارڑ صاحب زمین میری ہے‘ فیری میڈو کے جنگلوں میں لکڑی بہت ہے‘ صرف تعمیر کا خرچہ ہے جو بیس ہزار سے زیادہ نہ ہوگا... چلے آیئے لیکن یہ ایک خواب تھا جو خواب ہی رہا... رحمت نبی اب بوڑھا ہو کر کبڑا ہوچکا ہے اور اب بھی فون پر کہتا ہے” تارڑ صاحب... میں نے فیری میڈو میں جو ہوٹل رائے کوٹ سرائے تعمیر کیا ہے جس کا ایک کمرہ آپ کے نام پر ہے اور وہاں جو” تارڑ لیک“ ہے وہ آپکی راہ دیکھتی ہے... تو کب آﺅ گے... وہ کیا جانے کہ یہ سب تنہائی کے خواب سراب ہیں‘ اس بڑھاپے میں قدم رکھا تو گویا ایک آخری تنہائی میں قدم رکھا...