روس کے وزیر خارجہ سرگئی لاروف کا حالیہ دورہ اسلام آباد، دونوں ممالک کے درمیان عسکری و تجارتی تعلقات میں گرم جوشی اور باہمی مفادات کے فروغ میں تیزی لانے کا موجب بنے گا۔ پاکستان میں روس کے وزیر خارجہ کا نو سال بعد دورہ اس بات کی بھی علامت ہے کہ ماضی کی غلط فہمیوں اور سرد مہری کی برف پگھل گئی ہے اور دونوں ممالک مفاہمت کی نئی راہوں پر مشترکہ مفادات کےلئے تعاون پر تیار ہیں روس، سابق سوویت یونین کی سوشلسٹ فیڈریشن میں سب سے بڑا ملک تھا‘ مغرب کی سرمایہ دارانہ معیشت کےلئے سوشلزم ایک خطرہ سمجھا گیا اور دوسری جنگ عظیم کے بعد دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہوئی تو نظریاتی طور پر بھی اس تقسیم کی لکیر کھنچ گئی ۔پاکستان شروع سے ہی سوشلسٹ سوویت یونین سے کنارہ کش رہا۔اگرچہ 1970 کی دہائی میں پیپلز پارٹی کی حکومت میں کچھ تعلقات بہتر ہوئے، پاکستان سٹیل مل اسی دور میں قائم ہوئی، لیکن بھارت/روس تعلقات کی وجہ سے پاکستان روس کے ساتھ قربت میں ایک حد سے آگے بڑھنے پر تیار نہ نہیںتھا، بہرحال، سوشلسٹ اور سرمایہ داری نظام کی تقسیم سے دنیا میں ایک طویل سرد جنگ اور دوسرے ممالک میں مداخلت کا ایسا سلسلہ شروع ہوا جس سے ہتھیاروں کی دوڑ اور باہمی لڑائیوں کی قباحت نے دنیا کو دو واضح گروپوں میں تقسیم کرکے رکھ دیا اگرچہ اس دوران مصر، بھارت اور یوگو سلاویہ کی قیادت میں”غیر وابستہ ممالک“ کی تنظیم بھی قائم ہوئی، مگر عملاً یہ ممالک بھی سوویت بلاک کا حصہ تھے۔ اس سرد جنگ کی تاریخ میں دو گرم جنگیں اپنی طوالت اور تباہ کاری کی وجہ سے مشہور ہوئیں۔ پہلی ویتنام کی جنگ تھی، جس میں سوویت یونین نے فتح پائی اور دوسری افغانستان میں جنگ تھی، جس کے ساتھ ہی سوویت یونین کا شیرازہ بکھر گیا۔ اس لئے کابل سے روسی انخلا کے بعد بھی پاکستان سے تعلقات میں سرد مہری اور اعتماد کا فقدان رہا جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت شروع سے ہی روسی بلاک کا حصہ رہا شاید ماسکو اور اسلام آباد میں مراسم کی بہتری کی راہ میں دہلی بھی ایک رکاوٹ رہا اس کے باوجود پاکستان نے ہمیشہ کوشش کی کہ ماسکو کے ساتھ سفارتی اور تجارتی روابط مستحکم ہوں سوویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد عالمی سطح پر امریکہ کے واحد سپر پاور ہونے سے جو عدم توازن پیدا ہوا، امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں جس طرح فوج کشی کی، اس سے دنیا میں عدم تحفظ کا احساس اجاگر ہوا. نظام فطرت ہے کہ خالی جگہ پ±ر کرنے کےلئے نئی تحریک ضرور سامنے آتی ہے. اس عرصے میں چین اپنی صنعتی اور تجارتی اشیاءلیکر، خاموشی کے ساتھ دنیا پر چھانے لگا پھر امن اور ترقی کی راہداریاں بناکر، ممالک کے درمیان اپنا اثرورسوخ بڑھانے لگا روس کی نئی قیادت بھی چین کے ساتھ مسابقت کی بجائے مصالحت اور مفاہمت پر راغب ہونے لگی اور اس طرح امریکی اجارہ داری کے مقابل ایک نیا عالمی بلاک تیار ہوگیا۔ پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات تو 1971 سے قائم تھے اور ان میں وقت کے ساتھ بہتری آتی گئی، 2000 کے بعد روس سے بھی نئے امکانات پر سلسلہ جنبانی شروع ہوگیالیکن تلخ ماضی کی پرچھائیاں چھٹنے میں وقت لگا بالخصوص عسکری معاملات اور تعاون کےلئے اعتماد کی بحالی کو کئی برس لگ گئے، اس سلسلے میں 2018 میں پاکستان کے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کا ماسکو کا دورہ بریک تھرو ثابت ہوا۔ اس میں عسکری تعاون کی راہیں بھی کھلیں اور اب تک دونوں ممالک کی افواج پانچ مشترکہ فوجی مشقوں میں شامل ہوچکی ہیں۔ پاکستان اور روس کے درمیان افغانستان بھی ایک اہم ایشو ہے۔ ماضی میں دونوں کے درمیان اختلافات کی وجہ بھی افغانستان ہی رہا تھا‘ پاکستان نے طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کرانے اور امن معاہدے کےلئے جو لائحہ عمل اپنایا اس میں روس کو بھی نظر انداز نہیں کیا، اس لئے اعتماد کی فضا مزید بہتر ہوئی۔ اس وقت بھی دونوں ممالک افغانستان میں دیرپا امن کےلئے ایک پیج پر ہیں۔ اس پس منظر میں سرگئی لاروف کی اسلام آباد آمد بہت سی نئی شروعات کا پیش خیمہ ثابت ہو گی۔ روسی وزیر خارجہ نے وزارت خارجہ میں طویل مذاکرات کے ساتھ وزیراعظم عمران خان اور آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات کی اور باہمی تعلقات کے فروغ پر بات چیت کی‘ پہلی بار روس کی طرف سے دہشت گردی کے خلاف جنگ کےلئے پاکستان کو خصوصی جنگی آلات دینے کی پیشکش کی گئی ہے اور دونوں ممالک کی مسلح افواج کی پہاڑوں اور سمندروں میں جنگی مشقوں پر آمادگی ظاہر کی ہے۔ تجارت میں بتدریج اضافہ کرنے اور 75 کروڑ ڈالر سے ایک ارب ڈالر تک لے جانے کی توقع بھی ظاہر کی گئی ہے‘ روس اور چین سے تعلقات میں فروغ سے پاکستان کی آزاد خارجہ پالیسی اور پاکستان کے مفادات کو اولیت دینے کا اظہار ہوتا ہے‘ ماضی میں ہم نے بہت سے فیصلے دوسروں کے مفادات کے تابع ہو کر کئے، جن سے پاکستان کے مفادات کو نقصان پہنچا اب نئی دنیا میں روس چین پاکستان اور ایران کی صورت میں جو اتحاد سامنے آیا ہے‘اس کی بنیاد امن اور ترقی پر ہے اور مستقبل میں دنیا کو نئی منزلوں تک لے جانےوالی راہداری بھی یہاں سے ہی گزرےں گی۔