ملک بھر میں معصوم بچوں کے ساتھ درندگی کے بڑھتے واقعات، اس بات کے غماز ہیں کہ ہم سماجی طور پر پستی کی پاتال میں گر چکے ہیں۔ ایک غیر سرکاری تنظیم کے مطابق گزشتہ سال 15 ہزار سے زائد بچوں کے ساتھ زیادتی ہوئی ہے، یہ وہ ریکارڈ ہے جو پولیس میں رپورٹ ہوئے، بہت سے واقعات بدنامی، اور اس سے زیادہ مجرموں کے خوف کی وجہ سے رپورٹ ہی نہیں ہوتے ۔ جیسے سندھ میں ایک معصوم لڑکی کے ساتھ زیادتی کا واقعہ سامنے آیا، ان اوباشوں کے خوف سے نہ تو لڑکی نے کسی کو بتایا، اور نہ ہی گھر والوں نے کسی سے ذکر کیا، اب یہ ممکن ہی نہیں کہ ایک 13 سالہ لڑکی اس قیامت سے گزری ہو اور ماں نہ جان سکے، لیکن ظالموں کا خوف ہی ہر ظلم پر خاموش رہنے پر مجبور کرتا ہے، پھر ان کی دیدہ دلیری دیکھئے کہ اس گھناو¿نے فعل کی ویڈیو بنا کر پورے گوٹھ میں پھیلا دی، جس کے بعد والدین رپورٹ کرنے پر مجبور ہو گئے۔ اس سے بڑی قیامت کیا ہوگی کہ مجرموں کو قانون یا معاشرے کا کوئی خوف نہیں، جب کہ مظلوم خوف سے زبان بند رکھنے پر مجبور ہیں، اگر موجودہ حکومت کے اقدامات کو دیکھا جائے تو پہلی بار بچوں کے ساتھ زیادتی کے مجرموں کو سزائے موت اور جنسی صلاحیت سے محروم کرنے کا قانون بنانے کی کوشش کی گئی، اس کی سماجی طور پر پذیرائی بھی کی گئی. لیکن بوجوہ اس قانون سازی کی کوشش کی بھرپور طریقے سے مخالفت کی گئی ‘ کسی بھی جرم کی روک تھام کےلئے نہ صرف قوانین بنائے جاتے ہیں، بلکہ ان پر بلاتفریق و بلا امتیاز عمل بھی کیا جاتا ہے ہمارے ہاں قوانین تو موجود ہیں، لیکن ان پر عمل اور مجرموں کو سزا دینے کےلئے کئی طرح کی رکاوٹیں ہیں‘ سب سے بڑی رکاوٹ خود معاشرہ ہے، جو بااثر مجرموں کے خلاف شکایت ہی نہیں کرتا اور اگر کوئی شکایت کر بھی دے تو گواہی دینے کےلئے کوئی تیار نہیں ہوتا اگرچہ اب عینی شاہدین کی جگہ ڈی این اے کی صورت میں ناقابل تردید شواہد اور ثبوت بھی ممکن ہے، لیکن ہمارے ہاں جدید سائنسی شواہد کو اتنا معتبر نہیں سمجھا جاتا ۔ابھی تک صرف سیالکوٹ کی معصوم زینب کے قاتل کو پھانسی ہوئی ہے۔ مگر کئی کیس ایسے بھی ہیں کہ مجرم پکڑے گئے لیکن بعد میں چھوٹ گئے اور پولیس ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھ گئی ۔ ہمارے ہاں بچوں اور خواتین کے ساتھ ہونے والے جرائم کی وجوہات بہت سی ہو سکتی ہیں لیکن اس کی روک تھام کا طریقہ ایک ہی ہے، اور وہ ہے سخت اور فوری سزائیں‘ جب تک جرم کی سزا کا خوف اجاگر نہیں ہوتا،ز یادتی اورآبروریزی کے واقعات کاتدارک مشکل ہے ۔ نئے قوانین پر غور کی بجائے اگر موجودہ قوانین پر بھی سختی کے ساتھ عمل درآمد ہو تو ان واقعات پر بڑی حد تک قابو پایا جا سکتا ہے۔موجودہ حکومت نے اس ضمن میں کئی اقدامات کئے ہیں اور کچھ مزید زیر غور ہیں۔ تاہم اس میںمعاشرے کے ہرفرد پر ذمہ داری عائد ہوتی ہے کہ وہ اس سلسلے میں نہ صرف قانون کابھرپور ساتھ دے بلکہ اپنے طور پر ہر کوئی ایسا ماحول پروان چڑھانے میں اپنا کردار داجہاں ہر کسی کی عزت و ناموس محفوظ ہو اور معاشرے کافرد دوسرے کی عزت و ناموس کی حفاظت کواپنی ذمہ داری سمجھے۔جن معاشروںمیں بچے محفوظ نہیں رہتے ان معاشروں کامستقبل پھرسوالیہ نشان بن کررہ جاتاہے ہمارے ہا ں بھی کچھ ایسی ہی صورت حال بنتی جارہی ہے ضرورت اس امر کی ہے کہ قوم کے مستقبل کو محفوظ بنانے کے ایک نکاتی ایجنڈ ے پر ملک بھر کی تمام جماعتیں اور قوتیں اتفاق کرلیں کیونکہ ہر معاملہ کو سیاست کی نذر کرنا انتہائی نامناسب رویہ ہی تصورکیاجائے گا ہم سب کو اپنا کردار بہرحال ادا کرناہے ۔