جب سے انسان نے ایک معاشرتی زندگی کا آغاز کیا ہے ایک ضرورت انسان کو لا حق ہو گئی کہ اگر کوئی ایک انسان دوسرے انسان سے کوئی زیادتی کرے تو اس کا کیا کیا جائے۔ اس طرح ہر معاشرے میں کسی نہ کسی صورت میںیہ نظام رائج ہوتا گیاکہ جو شخص بھی کوئی زیادتی کرے گا اُس کو اس کے مطابق سزا دی جائے گی۔سزا اور جزا کا یہ نظام اس لئے موجود ہوتا ہے کہ اس سے معاشرے میں معاملات صحیح سمت میں چلتے ہیں اور اگر لوگوں کے دلوں سے اپنے برے اعمال کی سزا کا خوف ختم ہو جائے تو پھر وہاں پر انسان زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔ یعنی اگر یہ ڈر ہوگا کہ میں نے اگر کسی سے ساتھ کوئی زیادتی کی تو اُسی قسم کی مجھے سزا ملے گی تو انسان زیادتی والی باتوں سے بچنے کی کوشش کرے گا ۔ گو اس کے باوجود بھی انسان نے اپنی فطرت کے مطابق زیادتیوں کا ارتکاب تو کیا مگر جب اس زیادتی کے مطابق معاشرے نے سزا دی تو جرم میں کمی آ گئی۔ سزا کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ دیکھنے والے عبرت پکڑ یںاور ایسے جرائم کا ارتکاب کرنے سے گریز کریں۔ جب معاشرے میں جرائم نہیں ہوں گے تو وہاں پر رہنے والے بہترین معاشرتی زندگی بسر کریں گے اور اگر کسی سے بھی کوئی جرم ہو جاتا ہے اور اس کو اس جرم کی قرار واقعی سزامل جاتی ہے تو دیگر لوگ اس سے عبرت پکڑتے ہیں اور یوںمعاشرے میں برائیوں کاخاتمہ ہو جاتا ہے اور معاشرہ ایک بہترین معاشرہ کہلانے کا مستحق بن جاتا ہے۔ جہاں تک انسان کا تعلق ہے تو اس سے برائی سرزد ہو جاتی ہے اور اگر اُس کو سزا مل جائے تو دیگر لوگ اس سے اجتناب کریں گے اور برائی کا خاتمہ ممکن ہو جائے گا۔ اگر کسی برائی کی سزا نہ دی جائے تو یہ برائی معاشرے میں پھیل جانے کا خدشہ ہمیشہ رہے گا اور یوں معاشرتی زندگی میں بد امنی پھیلے گی اور معاشرہ رہنے کے قابل نہیں رہے گا۔ اسلام میں اور دیگر آسمانی مذاہب میں بھی مجرموں کو سزا کا حکم دیا گیا ہے اور اس پر سختی سے عمل کروانے کا حکم دیا گیا ہے۔ اگر کوئی چوری کرتا ہے تو اسلام میںاس کا ہاتھ کاٹنے کی سز ا ہے اور جہاں اس سزا کا حکم ہے اس کےساتھ ہی یہ فرمان بھی ہے کہ تم یہ سزا دینے میں ترس نہ کھاو¿ ۔ جب سزائیں حیثیت دیکھ کر دی جاتی ہیں تو معاشرے میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے ۔ اس لئے کہ صاحبان حیثیت جانتے ہیںکہ اُن کو کوئی سزا نہیں ہو گی تو ان سے قبیح قسم کے جرائم بھی سر زد ہو سکتے ہیں اور یوں جرائم میں کمی کا امکان نہیںرہتا اور معاشرہ بگاڑ کی طرف چلا جاتا ہے اور جس بھی معاشرے میں بگاڑعام ہو جائے تو اس کا چلنا مشکل ہو جاتا ہے۔اسلام میں جو سزائیں تجویز کی گئی ہیں یہی سزائیں کم وبیش تمام آسمانی مذاہب میںہیں۔ جرم کی سزا معاشرے میں امن پیام بر ہوتی ہے اورجس معاشرے میں امن ہو وہ معاشرہ مثالی معاشرہ کہلا تا ہے۔ جب اسلامی معاشرے میں سزاو¿ں پر عمل درآمد ہوتا تھا تو اس میں جرائم نہ ہونے کے برابر رہ گئے تھے۔ مگر جب لوگوں نے امیر و غریب کا یا طاقت ور اور کمزور کا فرق کرنا شروع کیا تو یہی معاشرہ زوال پذیر ہوا اور پھر دوسری قوموں نے ان پر تسلط قائم کر دیا ۔ اسی لئے کہا گیا ہے کہ اے سجھدار لوگو قصاص میں تمہارے لئے زندگی ہے یعنی جب مجرم کو قرار واقعی سزا دی جائے گی تو معاشرے میں جر ائم ختم ہو جائیں گے اور زندگی آسان ہو جائےگی۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جرائم کی بیخ کنی تب ہی ہوسکتی ہے جب قانون سخت ہو اور اس پر عملدرآمد یقینی ہو اسی طرح سزا کا خوف رہتا ہے تو جرائم کا ارتکاب کرنے سے لوگ کتراتے ہیں۔