رمضان، زندگی میں حقیقی تبدیلی لانے کا موقع۔۔۔۔۔۔

رحمتوں، برکتوں اور بخشش کا مہینہ، رمضان، اپنے ساتھ بہت سے خزانے لے کر آتا ہے، اس سال بھی یقینا ایسا ہی ہے، ہمارے لئے سب سے بڑی بات یہ ہوئی کہ ملک میں رویت ہلال پر کوئی تنازعہ نہیں ہوا، اور ایک ہی دن روزہ شروع ہوا ہے۔ ہمیں ہر بات میں سوچ مثبت رکھنی چاہئے اور اچھا نتیجہ اخذ کرنا چاہئے، ایک دن روزہ شروع ہونا بھی برکت و رحمت اور اتحاد امت کا باعث ہے۔ اس کے ساتھ بڑے مہینے میں بڑے امتحان اور آزمائش کا انداز بھی بدل جاتا ہے، گزشتہ سال کی طرح اس سال بھی کورونا کی وبا اپنی تمام تر ہلاکت خیزی اور خوف کے ساتھ موجود ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ اب کی بار یہ وبا بہت زیادہ خطرناک ضرور ہے، لیکن عوام میں خوف اتنا نہیں ہے۔ کسی بھی مصیبت میں خوفزدہ ہونا مشکلات کو مزید بڑھا دیتا ہے، لیکن کورونا کے ضمن میں بے خوفی کا مطلب اس سے بچاؤ کیلئے احتیاط کا دامن چھوڑ دینا ہے، اور شاید ہماری یہی غیر محتاط بے خوفی بیماری کو زیادہ پھیلانے میں مدد گار ثابت ہو رہی ہے۔ مساجد کی حد تک اور عبادت کے دوران تو بڑی حد تک احتیاطی تدابیر اختیار کی جارہی ہیں، ویسے بھی صاف ستھرا ماحول، دن میں پانچ بار وضو کرنے اور زبان سے اللہ کا ذکر اور ورد کرتے رہنا، بذات خود اس طرح کی وبا سے بچاؤ کے موثر اور مجرّب ذرائع ہیں، اس کے باوجود بڑی مساجد میں سینی ٹائزنگ اور سماجی فاصلے کا اہتمام بھی کیا جا رہا ہے۔ چونکہ یہ سب اللہ کے حکم اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بتائے طریقے کے مطابق ہے، اس لیے ہمیں یقین ہے کہ اس ماہ مبارک میں، جہاں ہم گناہوں اور اللہ کے عذاب سے نجات حاصل کریں گے، وہاں اس موذی وبا سے بھی آزادی مل جائے گی۔ لیکن ہمارا المیہ ذرا مختلف قسم کا ہے، ہم میں سے جو لوگ مساجد میں جاتے بھی ہیں، وہ بھی دن کے 24 گھنٹوں میں سے بمشکل چار گھنٹے ہی ہیں، باقی20 گھنٹے، جو ہم گھر، بازار یا دفتر میں رہتے ہیں، وہاں اللہ کے حکم، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت اور معمولات میں حکومت کی جاری کردہ ہدایات پر کس حد تک عمل کرتے ہیں، ہماری زندگی پر اس کے اثرات زیادہ مرتب ہوتے ہیں۔ یہ تو ہماری عادت ہے، اور پختہ یقین ہے کہ آئین اور قانون اور حکومتی احکامات پر عمل صرف اس وقت ہی ضروری ہوتا ہے، جب کوئی پولیس والا دیکھ رہا ہوں اور سچی بات یہ ہے کہ ہمارا اللہ کے احکامات کے حوالے سے بھی رویہ، اس سے کچھ زیادہ مختلف نہیں ہوتا، اس لیے اجتماعی معاملات اور سماجی ذمہ داریوں کی بجا آوری میں بھی ہم صرف ظاہری اور دکھائی دینے والے اعمال پر ہی زور دیتے ہیں۔ تاجروں پر منافع خوری، ملاوٹ، چوربازاری اور دھوکہ دہی کے الزامات تو ہم کسی تصدیق کے بغیر بھی عائد کر دیتے ہیں، لیکن اپنے رویوں پر غور نہیں کرتے، رمضان میں صدقہ و خیرات اور انفاق فی سبیل اللہ پر زیادہ زور ہوتا ہے اور اللہ کے نیک بندے اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے اللہ کی رضاء کیلئے خرچ کرتے ہیں۔تاہم افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ کچھ لوگ ایسے بھی کہ اس کام میں اللہ کی رضا و خوشنودی سے زیادہ ذاتی نمود اور نمائش کا خیال رکھتے ہیں، جن کو دے رہے ہیں، ان کی عزت نفس کے مجروح ہونے پر دھیان نہیں دیتے، روزے کے دوران دفاتر اور کام کی جگہ پر اپنے فرائض کی ادائیگی کے حوالے سے بھی ہمیں اپنے طرز عمل پرسوچنا ہوگا۔ آپ کی تنخواہ تب ہی حلال ہوگی، جب سارا وقت پوری نیک نیتی سے صرف وہی کام کریں گے، جس کا معاوضہ ملتا ہے، اور ہاں سرکاری یا دفتری وسائل، ٹیلیفون، بجلی، ایئرکنڈیشننگ اور ہیٹنگ کی سہولیات اور سٹیشنری یا دیگر سامان کا ذاتی استعمال میں لانا بھی اسی دکاندار کی خیانت کی طرح ہے، جس پر ہم چور بازاری یا ملاوٹ و دھوکہ دہی کا الزام لگاتے ہیں۔ کیا ہی اچھا ہو کہ ہم شام کو مسجد میں جا کر جب اللہ کے حضور عبادت کیلئے حاضر ہوں تو اپنے دن بھر کے معمولات پر ایک نظر ڈالیں اور یہ دیکھیں کہ کسی کے ساتھ زیادتی تو نہیں کی، دھوکہ تو نہیں دیا اور اپنی کمائی کو مشکوک تو نہیں بنا دیا، اگر خود احتسابی کی عادت پختہ ہو جائے، اور دین کو مسجد کے ساتھ بازاروں و دفتروں میں بھی پیش نظر رکھا جائے تو نہ صرف زندگی آسان ہو جائے گی، بلکہ وباؤں اور بلاؤں سے بھی نجات پا سکیں گے۔ اس کے لیے رمضان مبارک ایک بہترین موقع ہے، تزکیہ نفس کیلئے اس سے فائدہ اٹھانے کا مطلب زندگیوں میں حقیقی تبدیلی لانا ہے۔