سیانے کہتے ہیں کہ کوئی بھی شخص جب بہتے ہوئے پانی میں ایک پاؤں رکھتا ہے تو اسی پانی میں دوسرا پاؤں نہیں رکھ سکتا کیونکہ تب تک پہلا پانی بہت آگے بڑھ چکا ہو تا ہے زندگی بھی اسی طرح بہے جا رہی ہے جو کل تھا وہ آج نہیں ہے جو لمحہ بیت گیا بس بیت گیا اسے واپس نہیں بلایا جاسکتا،البتہ گزرتا لمحہ جو کہانیاں ہماری پیشانی پر نقش کر جاتا ہے گاہے گاہے انہیں پڑھنا اس لئے بھی ضروری ہے کہ ماضی کی کہانیاں مستقبل کے راستوں کو ہموار بنانے میں مددگار ثابت ہوتی ہیں، گزشتہ کل کے ساتھ زندہ رہنا مناسب حکمت عملی نہیں مگر اسے یکسر فراموش کرنا بھی بہتر عمل نہیں ہے کیونکہ نئے سفر کو خوشگوار بنانے کے لئے سابقہ تجربے ہی کام آتے ہیں،شاید اس لئے کہا جاتا ہے کہ ’مومن ایک سوراخ سے دو بار نہیں ڈسا جا سکتا‘ پرانے تجربے بھلے سے کتنے بھی تلخ کیوں نہ ہوں انہیں یاد رکھنا پڑتا ہے داغستان کے معروف شاعر، رسول حمزہ توف کہتے ہیں کہ ”ماضی پر پستول تانو گے تو مستقبل تم پر گو لہ باری کرے گا“ بیتے ہوئے دنوں کی جھولی میں تلخ و شیریں دونوں کی طرح یادیں ہوتی ہیں،لیکن اچھی یادوں کو دہرانا تو اچھا لگتا مگر تلخ یادیں بھی خواہی نخواہی تنہائی میں پاس آ جاتی ہیں،جس سے بدن ایک جھرجھری سے لے کر بے چین سا ہو جاتا ہے اور کوشش ہوتی ہے کہ انہیں ذہن سے جھٹک دیا جائے مگر یہ سب محض ایک خواہش ہو تی ہے ذہن سے کسی بھی یاد کو کھرچ کر الگ کرنا کسی کے بس میں نہیں ہو تا، بعض یادیں ہماری تنہائی کو گرما اور مہکا دیتی ہیں ان کے ساتھ رہنا ا لبتہ ایک خوشگوار تجربہ ہو تا ہے لیکن دل دکھانے والی یادیں بھی رہ رہ کر یاد آ جاتی ہیں،
”بیتے ہوئے کچھ دن ایسے ہیں تنہائی جنہیں دہراتی ہے
رو رو کے گزرتی ہیں راتیں، آنکھوں میں سحر ہو جاتی ہے
دل کے معا ملات میں بھی ایسی بہت سے گھڑیاں یادوں کی گٹھری میں بندھی ہو تی ہیں جو بعد کے زمانوں میں گٹھڑی کھلنے پر بہت تنگ کرنے لگتی ہیں، بلکہ عجیب سلوک روا رکھتی ہیں کہا جاتا ہے (اور درست کہا جاتا ہے) کہ جس وقت ماضی کے وہ لمحات یاد آتے ہیں جب کسی کے ساتھ زندگی بھر ساتھ نبھانے کی قسمیں کھاتے ہوئے کیسے روئے تھے تو بہت ہنسی آ تی ہے کہ ایسا کیوں کیا تھا لیکن پھر کسی کے سنگ بتائے ہوئے وہ لمحے یاد آتے ہے جب مل کر ذرا ذرا بات پر بے تحاشا ہنسا کرتے تھے تو سچی بہت رونا آ تا ہے۔ انہی لمحات میں جب اپنے بعد آنے والوں کی، دلی معاملات میں بے چینی دیکھتے ہیں تو مومن خان مومن یا د آ جاتے ہیں، جو کہتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ ہوئے ایسے پشیمان کہ بس
ایک وہ ہیں کہ جنہیں چاہ کے ارماں ہوں گے
ماضی کو یاد کرنے کے ساتھ ساتھ ماضی کو یاد رکھنا بھی ضروری ہے، اس کے سماجی پہلو بھی ہیں اور یقیناََ نفسیاتی اور سیاسی حوالے بھی ہیں، جیسے خانہ دار قسم کی خواتین کا اپنے عزیز و اقارب کے ساتھ تعلقات میں توازن کو اور شادی بیاہ کے مواقع پر لین دین کو ہمیشہ یاد رکھتی ہیں، بیسوں برس بھی ان کو یاد رہتا ہے کہ فلاں رشتہ دار نے میرے بیٹے کی شادی پر مجھے کیا کیا دیا تھا اور اس وقت اس کی کیا قیمت تھی۔ اور جن کا اپنی یاداشت پر بھروسہ نہیں ہو تا انہوں نے اس کام کے لئے باقاعدہ ڈائری رکھی ہوتی ہے،جس میں سب لکھا ہو تا ہے، کس نے کس موقع پر کیا تحفہ دیا تھا،گویا انہوں نے ماضی کو ڈائری میں قید کر رکھا ہوتا ہے اور بوقت ضرورت ڈائری کی طرف رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس میں کوئی دوسری رائے نہیں ہو سکتی کہ ڈائری تو ہوتی ہی حساب کتاب کے لئے ہے مگر اس طرح کی یاداشتیں ڈائری کے رومانی تصور کو بہت زک پہنچاتی ہیں، اس میں تو وہ یاداشتیں ہوتی ہیں جن سے یادوں کے ہرے زخموں کو لالہ گوں بنایاجاتا ہے۔
تازہ خواہی داشتن گر داغ ہائے سینہ را
گاہے گاہے باز خواں این دفتر پارینہ را
اگر تو چاہتا ہے کہ سینے کے داغ تازہ رہیں تو کبھی کبھی پرانے قصے پڑھ لیا کر، کیونکہ دلی معاملات میں تڑپنے سے ہی تسکین کا سامان پیدا کیا جاتاہے اس لئے ڈائری میں دنیاداری کے قصے بظاہر کچھ بے جوڑ سے لگتے ہیں، مگر کیا کیا جائے کہ یہ حساب کتاب بھی تو ماضی کی کتاب کا ایک ضروری باب ہے، اسی طرح اگر سیاسی حوالوں کو سامنے رکھا جائے تو بازار سیاست کی ساری سرگرمیاں اور گہما گہمیاں ماضی ہی کی رہین ہو تی ہیں، کیونکہ سیاسی زعما کا ”آج“ گزشتہ کل کے قصے کہا نیوں کے بغیر سنورتا ہی نہیں، یوں بھی کوئے سیاست کا چلن یہی ہے کہ تمام تر کامیابیوں کو اپنی سیاسی سمجھ بوجھ کا نتیجہ قرار دیا جائے اور کسی بھی طرح کی ناکامی کو گزشتہ ادوار کی غلط حکمت عملیوں اور فیصلوں کے کھاتے میں ڈالنے کی روایت ہر نئے دور کی مجبوری ٹھہرتی ہے، اس لئے سیاسی زعما یاس یگانہ کی زبان میں یہ کہہ کر خود کو بری الذمہ قرار دیتے ہیں کہ
مجھے دل کی خطا پر یاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں آتا
چلئے سیاست کی دنیا کو تو چھورئیے کہ ”اک معمہ ہے سمجھنے کا نہ سمجھانے کا“ کل کے حریف دیکھتے ہی دیکھتے حلیف بن جاتے ہیں اور پھرجب مفادات آڑے آتے ہیں تو بڑی سہولت سے دامن جھاڑ کر اور چادر اٹھا کر ماضی کی پوزیشن پر آ جاتے ہیں، کوئی پوچھے تو کہہ دیا جاتا ہے کہ یہی تو سیاست ہے، اور یہ سیاست کم از کم اہل محبت کو کم کم ہی لبھاتی ہے کہ وہ تو جگر مراد آبادی کے ہم زباں ہوا کرتے ہیں۔
ان کا جو فرض ہے وہ اہل ِ سیاست جانیں
میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے