وہ کہیں اور سنا کرے کوئی۔۔۔

اللہ تعالی کی ذات بے نیاز ہے، جب کسی بندے کو نوازنا چاہے، تو صرف اپنی کرم نوازی کے صدقے ہی عنایت فرماتا ہے، کسی کو دولت و اسباب سے مالا مال کرتا ہے تو کوئی ایسا بھی ہے جس کو اظہار بیان کی ایسی خوبی عطا کرتا ہے، کہ اس کی بات دلوں کو تسخیر کرے‘ الغرض ہر انسان کو اللہ کریم نے کسی نہ کسی صلاحیت سے نوازا ہے، ایسی ہی ایک شخصیت ہمارے حلقہ احباب کا حسن و زیور ہے، اور وہ پاکستان اور پاکستانیت کا پرچم سربلند رکھنے والی ممتاز قومی شخصیت، میجر عامر کی ہے، آپ کو جو بھی جانتا ہے، وہ اس بات کا بھی علم رکھتا ہے کہ میجر عامر کے پاس دنیاوی وسائل و اسباب دیکھیں یا علمی خزائن، ماشاء اللہ کہے بغیر نہیں رہا جا سکتا‘ خاندانی وراثت کے لحاظ سے زمیندار اور دین کے خادم، جب کہ پیشے کے لحاظ سے قومی سلامتی اور دفاعی امور کے ماہر، ان موضوعات پر تو ہر لحاظ سے ثقہ اور سامعین کے اذہان و قلوب کو اپنے دلائل سے لاجواب کرنے پر قادر ہیں، لیکن شعر و ادب پر ان کے مطالعے اور ذوق کا یہ عالم ہے کہ ایک مشہور شاعر اپنا ہی شعر غلط لکھ دیں تو ان کی اصلاح کریں اور جب کسی شاعر یا ادیب پر بولنے لگیں تو بیان کی روانی سننے کو دل کرے۔ اہل صحافت کیلئے ہمیشہ ایک رہنما اور سہولت کار کی حیثیت سے پیش آئیں، قوم کی رہنمائی کرنے کے دعویدار صحافی و کالم نویس اپنی فکری پیاس میجر عامر کی چاہ علم سے بجھائیں، لیکن کبھی خود یہ دعویٰ نہیں کیا کہ کس کس کے مربی و استاد ہیں۔ کسی دینی مجلس میں علماء کے سامنے کھڑے ہوں تو قرآن و حدیث کے مبارک خزانوں سے موتی ایسے بکھیریں کہ علماء بھی رشک کریں، ان سب سے ساتھ سیاسی شعور ایسا کے بڑے بڑے سیاسی جغادروں کی سیاسی حکمت عملی کو قبل از وقت سمجھ جائیں، ان سب کا محور و مرکز صرف دین حق کی تبلیغ و ترویج اور مملکت خداداد پاکستان سے محبت اور وفا کا جذبہ اجاگر کرنا ہے، جب اور جہاں موقع ملے اس مقصد کو بیان کرکے اپنی مٹی سے وفاداری کا فرض ادا کرتے ہیں۔ میجر عامر سچے پختون ہونے کی حیثیت سے اپنی قومیت اور زبان سے محبت کرنے کے ساتھ پاکستانیت پر فخر کرتے ہیں، اور ان پختون دانشوروں کی ہمیشہ اصلاح کرتے نظر آتے ہیں، جو پاکستان کے بجائے افغانستان سے خود کو وابستہ کرنے کی بات کرتے ہیں۔ گزشتہ روز صوابی میں صحافیوں کی ایک تقریب میں انہوں نے ایک بار پھر دل کی باتیں، دماغ کے زور سے کیں، انہوں نے ایسی حقیقت بیان کی، جس سے ان تمام فکری طور پر کمزور حضرات کا اصل کھول کر رکھ دیا۔ انہوں نے چیلنج کی طرح سوال رکھا کہ کوئی ایسا پاکستانی پختون دکھا دیں، جو افغانستان کی شہریت حاصل کرنا چاہتا ہو، جبکہ وہ ایسے ہزاروں افغانیوں کی نشاندہی کر سکتے ہیں، جنہوں نے پاکستان کی شہریت اور پاسپورٹ حاصل کر رکھا ہے، اور لاکھوں اس کے حصول کے طلبگار ہیں، مختلف اوقات میں کئی سیاسی شخصیات افغانستان منتقل ہوئیں، لیکن وہ ادھر بھی پاکستانی ہی رہے، کبھی یہ کوشش ہی نہیں کی کہ وہاں کی شہریت حاصل کریں۔ میجر عامر کی یہ بات ناقابل تردید ہے کہ اس وقت پختون، خیبرپختونخوا سے زیادہ اسلام آباد، پنجاب اور سندھ میں بستے ہیں، سرکاری ملازمتوں کے علاوہ تجارت و روزگار کے مختلف شعبوں سے منسلک ہیں، یہ بات قومی سطح پر تسلیم شدہ ہے کہ پاکستان کے گلدستے میں پختون ایک حسین پھول کی طرح ہیں، وہ صدر مملکت، وزیراعظم اور چیف آف آرمی سٹاف جیسے اعلی ترین اور طاقتور ترین مناصب پر فائز رہے ہیں، تحریک آزادی سے لے کر قیام پاکستان تک، پختونوں کی جدوجہد اور قربانیاں تاریخ کا ناقابل فراموش باب ہیں، جن کو کوئی جھٹلا نہیں سکتا۔ میجر عامر کی ذات اور شخصیت کا امتیاز یہ ہے کہ وہی یہ باتیں کر سکتے ہیں، اور دلوں پر اثر بھی کرتی ہیں، ان کی وجہ سے پاکستانیت کا جذبہ نئے جوش سے پروان چڑھتا ہے۔