سال کے بارہ مہینے ہیں۔ انسان ان بارہ مہینوں میں اپنے کاموں میں مصروف رہتا ہے۔ اور سارا سال کھانے پینے میں بھی مصروف رہتا ہے۔ اگر سائنسی لحاظ سے دیکھیں تو یہ با ت سامنے آتی ہے کہ انسانی صحت کیلئے جہاں کھانا پینا ضروری ہے وہاں اس کو اعتدال کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اگرصرف کھانے کو ہی مطمح نظر بنا لیا جائے تو اس میں طبی لحاظ سے بہت سے نقصانات ہوتے ہیں۔ سائنس کے مطابق انسان کو کھانے میں جہاں اعتدال کی ضرورت ہے وہاں یہ بھی کہا گیا ہے کہ کچھ دن انسان کو فاقہ بھی کرنا چاہئے۔ یہ بات اب سائنسی طور پر بھی ثابت ہو چکی ہے کہ انسان کو سارا سال صرف کھانے پر ہی زور نہیں دینا چاہئے بلکہ اس میں وفقہ کرنا بھی صحت کیلئے ضروری ہے۔ اسلا م دین فطرت ہے۔ اسلام کی جتنی بھی عبادات ہیں وہ روحانی صحت کیلئے تو اہم ہیں ہی ساتھ جسمانی طور پر بھی بہت اہم ہیں۔نماز میں جو عمل کیا جاتاہے وہ انسان صحت کیلئے مفید ہے۔ جوباقاعدگی سے نماز ادا کرتاہے اس کی صحت سارا سال ٹھیک رہتی ہے۔ کچھ وباؤں کی بات الگ ہے مگر ان وباؤں میں بھی اگر عبادات پر عمل کیا جائے تو انسان کو ان تکالیف میں بھی بہت سہولت ملتی ہے۔ گو بیماری میں دوا لینا بھی اسلام کے احکام میں سے ہے مگر اسلامی شعار کو اپنانے میں انسان کو ہر حالت میں سہولت ملتی ہے۔ سال میں ایک مہینہ جو مسلمانوں کو روزہ رکھنے کا حکم ہے اس میں بھی بہت سی حکمتیں ہیں۔ دنیا داری کے لحاظ سے دیکھیں تو جو ایک مہینہ مسلمان روزہ رکھتاہے تو اس کو اُن غریبوں کی تکلیف کا احساس ہوتاہے کہ جن کے پاس کھانے کو کچھ نہیں ہے۔ اس لئے ایک مسلمان ان لوگوں کی تکالیف کا احساس کرتے ہوئے غریبوں کی امدا د کیلئے ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرتا ہے۔ اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ تاریخی طور پر جب اسلامی سلطنتوں میں کہا جاتا ہے کہ کوئی بھوکا نہیں سوتا تھا اس لئے کہ اسلامی سلطنتوں میں جہاں حکومت اپنی رعایا کا خیال کرتی تھی وہاں عوام بھی ایک دوسرے کا خیال کرتے تھے اور ہر شخص یہ دیکھتا تھا کہ اگر اُس کو اللہ نے کھانا دیا ہے تو کہیں اُس کا ہمسایہ بھوکا تو نہیں ہے۔ یوں ایک ایسا بھائی چارہ عوام میں بن جاتا تھا کہ لوگ ایک دوسرے کا خیال رکھتے۔ اس لئے کہ ہر مسلمان کو یہ عملی طور پر معلوم ہوتا ہے کہ ایک بھوکے انسان پر کیا گزرتی ہے اسی لئے وہ اپنے گھر کے کھانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہمسایہ کے کھانے کا بھی خیال کرتا ہے۔ ہمارے ہاں بھی جب تک یہ لوگ سرمائے کے پیچھے بھاگنے کی عادت نہیں اپنائے ہوئے تھے تو ہمارے دیہاتی گھروں میں یہ عمل تھا کہ رات کو اگر کسی نے گھر میں سالن بنایا ہے تو وہ اپنے پڑوسیوں کے گھروں میں ضرور اپنے گھر کا سالن پہنچایا کرتا تھا، اور جو لوگ اس قابل نہ ہو ں کہ انہوں نے سالن نہیں بنایا تو پڑوسی اُس کے گھر سالن ضرور پہنچاتے تھے۔ گاؤں کی آبادی کیونکہ اتنی زیادہ نہیں ہوتی تھی اس لئے سب کو معلوم ہوتا تھا کہ کس کے گھر کا کیا حال ہے اس لئے وہ جہاں تک ہو سکتا اپنے پڑوسیوں کا خیال کرتے تھے۔ اب چونکہ لوگ زیادہ مادہ پرست ہو گئے ہیں اس لئے ان باتوں پر بہت کم توجہ دی جاتی ہے او ر کہا جاتاہے کہ حکومت ہی کا ذمہ ہے کہ وہ اپنی رعایا کا خیال کرے مگر یہ جو ہمارے مذہب میں پڑوسیوں کے متعلق احکام ہیں یہ اتنے زیادہ ہیں کہ حضور ﷺ کا ارشاد مبارک ہے کہ مجھے پڑوسیوں کے متعلق اتنی تاکید ہوئی کہ میں یہ سمجھنے لگا تھا کہ شاید پڑوسی کو وراثت میں بھی حقدار بنا دیا جائے گا۔ یہ ماہ مبارک یہ سمجھانے کیلئے کافی ہے کہ ایک مسلم معاشرے میں کیوں کوئی رات کو بھوکا نہیں سوتا تھا۔