ہمارے ملک نے بھی کیا قسمت پائی ہے، کہ کسی ایک کونے میں کوئی ردوبدل یا توڑ پھوڑ شروع ہو، تو پھر یہ سلسلہ دراز ہوتا جاتا ہے۔ سیاسی مہم جوئی کا فوری ری ایکشن سامنے آنے لگتا ہے، کس نے کبھی یہ بھی سوچا تھا کہ اقتدار ملنے سے پہلے ہی اپوزیشن اتحاد ٹوٹ جائےگا اور اپوزیشن جماعتوں میں اتنا اختلاف پیدا ہو جائے گا، تاریخی لحاظ سے دیکھیں تو پی این اے سے لے کر اے آر ڈی تک، بڑے اپوزیشن اتحاد اس وقت تک نہیں ٹوٹے، جب تک حکومت تبدیل نہیں ہوئی، لیکن ان کے برعکس، حال ہی میں جوش و خروش کے ساتھ، مولانا فضل الرحمن کے تجربے اور بلاول اور مریم کے جوان حوصلے کا امتزاج پی ڈی ایم قائم ہوا، لیکن ابھی تحریک شروع بھی نہیں ہوئی، نہ حکومت کمزور ہوئی، اور سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر کے سرکاری منصب کی کشش نے پی ڈی ایم کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا، نوجوان قیادت کے روپ میں مریم نے اگر نوڈیرو جاکر بھٹو خاندان کے مزارات پر حاضری دی تو بلاول بھی کئی بار جاتی عمرہ کے پھیرے لگانے گئے، مگر اب ایک دوسرے پر طنز کے تیر چلائے جارہے ہیں اور ایک میز پر بیٹھنابھی گوارا نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ پی ڈی ایم میں پھوٹ ڈالی گئی، لیکن شاید یہ موسم ہی ایسا ہے کہ کسی پر اعتبار کرنا مشکل ہے دوسری طرف وزیراعظم عمران خان کو اپنی کابینہ میں وسیع ردو بدل کرنا پڑا۔ وزارت اطلاعات سابق وزیر اطلاعات فواد چوہدری کو دے دی گئی اور دو ہفتے قبل وزارت خزانہ سنبھالنے والے حماد اظہر سے وزارت لے کر تجربہ کار شوکت ترین کو دے دی گئی ہے، عمر ایوب سے وزارت توانائی لے کر انہیں اقتصادی امور دیا گیا، جبکہ خسرو بختیار کو وزیر صنعت و تجارت دے دی گئی۔ ایک شوکت ترین کابینہ میں نیا چہرا ہے، باقی سب وہی وزیر ہیں، بس وزارتیں تبدیل ہوئی ہیں۔ویسے کسی بھی حکومت میں وزارتیں تبدیل ہونا معمول کی بات ہے اور کپتان کو اپنی ٹیم کے کھلاڑیوں سے کیسے کام لینا ہے، اس کا فیصلہ کرنے کا اختیار ہوتا ہے، لیکن واقفان حال کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم کے ٹوٹنے کے بعد بھی حکومت میں بھی بے چینی پائی جا رہی ہے، اب اگر اپوزیشن پارٹیوں، حکومتی پارٹی اور خود حکومت میں اکھاڑ پچھاڑ کا عمل ہو، تو عوام پر بھی اس کے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ سیاسی گرما گرمی اپنی جگہ تاہم عوام کے اپنے مسائل ہیں اس کے ساتھ ساتھ کورونا وبا کی لہر بھی تیز سے تیز تر ہورہی ہے اس لئے ان عوامل کی طرف بھی توجہ ضروری ہے۔ حکومت ہو یا حزب اختلاف دونوں کو عوام کی مشکلات کا احساس کرنا ہوگا جو کورونا سے جنم لینے والی بے روزگاری اور مہنگائی سے بری طرح متاثر ہیں۔ایسے میں اگر سیاسی گرما گرمی کے باعث ان کے مسائل نظر انداز ہوتے ہیں تو یقینا اس سے عوام کی مایوسی میں اضافہ ہوگا ۔