افغانستان سے امریکی انخلاء اور بھارت کی پریشانی۔۔۔

امریکی صدر جو بائیڈن نے افغانستان سے فوج کے مکمل انخلا کا شیڈول دے دیا ہے، جو اس سال مئی سے لے کر نائن الیون کی برسی کی مناسبت سے، ستمبر تک ہے، امریکہ کے ساتھ ہی نیٹو میں شامل ممالک بھی اپنی فوج نکالنے کیلئے تیار ہیں، اگرچہ امریکہ کا فیصلہ اچانک نہیں، بلکہ سابق صدر ٹرمپ 2020 میں ہی انخلاء مکمل کرنا چاہتے تھے، اس کے باوجود افغانستان کی حکومت اور اکثر سٹیک ہولڈرز کیلئے یہ اعلان صدمے کا باعث بنا۔ کابل حکومت کی خواہش اور مطالبہ تھا کہ امریکی فوج اس وقت تک نہ جائے، جب تک قطر معاہدے پر مکمل عملدرآمد نہیں ہوتا اور وسیع البنیاد معاہدہ نہیں ہو پاتا، البتہ طالبان نے امریکی انخلاء کو امن کی طرف پیش رفت میں اہم فیصلہ قرار دیا ہے۔ جہاں تک پاکستان کا تعلق ہے، موجودہ حکومت اور عسکری قیادت نے ہر اس بین الاقوامی کوشش کا خیر مقدم کیا ہے، جس سے افغانستان کے اندر امن قائم ہو اور ایک ایسی حکومت قائم ہو سکے، جس کو عوامی حمایت حاصل ہو‘اسی مقصد کے حصول کیلئے پاکستان نے طالبان اور افغانستان میں سیاسی جماعتوں کو مذاکرات کی میز پر لانے کیلئے سہولت کار ملک کا فرض ادا کیا‘ آج امریکہ سمیت ساری دنیا پاکستان کے اس کردار کی تعریف کر رہی ہے۔ یہ پاکستان کی خارجہ پالیسی اور امن کوشش کی کامیابی ہے کہ دیگر عالمی معاملات پر آپس میں اختلاف رکھنے والے ممالک بھی اس عمل میں آن بورڈ ہیں، ایران اور چین کے علاوہ روس اور افغانستان کی ہمسایہ وسط ایشیائی ریاستوں کو پاکستان نے سارے عمل اور پیش رفت سے آگاہ رکھا، اگرچہ ابھی بین الافغان مذاکرات میں مطلوبہ کامیابی حاصل نہیں ہو پائی، مگر دنیا امید کر رہی ہے کہ غیر ملکی افواج کے انخلاء کے دوران ہی افغانستان میں عبوری حکومت اور غیر جانبدارانہ انتخابات کے حوالے سے امور طے پا جائیں گے۔ اس وقت اگرچہ افغان انتظامیہ نے امریکی انخلا کی مخالفت نہیں کی، ویسے بھی امریکی فیصلے میں اس کی حمایت یا مخالفت کی اہمیت نہیں ہے، لیکن افغان صدر اشرف غنی کو اپنا مستقبل غیر یقینی نظر آنے لگا ہے‘ اسلئے افغانستان میں امن کے تمام تر عمل سے کنارہ کش رہ کر، انتشار کی راہیں تلاش کرنے والا بھارت تیزی سے منفی کردار ادا کر رہا ہے، بھارت ایک بار پھر افغان انتظامیہ میں اپنے کچھ ہم خیالوں کو استعمال کر کے امن کو سبوتاژکرنے میں کوشاں ہیں، مستقبل کے افغانستان میں اپنے کردار سے مایوس، بھارت اس کوشش میں ہے کہ عشروں سے عدم استحکام کا شکار ملک، اب بھی استحکام اور امن کو حاصل نہ کر پائے، کیونکہ منقسم اور منتشر افغانستان ہی بھارت کی دہشت گردی کیلئے موزوں ہے۔ یہاں سے وہ نہ صرف پاکستان کے اندر تخریب کاری کی کوشش کرتا ہے، بلکہ دیگر ہمسایہ ممالک میں بھی منفی سرگرمیاں سپانسر کرتا ہے اگر افغانستان میں امن قائم ہو جاتا ہے اور سیاسی حکومت قائم ہو جاتی ہے تو بھارت کے منفی منصوبے پروان نہیں چھڑیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ کشمیر سے لے کر بلوچستان تک دہشت گردی میں براہ راست ملوث بھارت کو اپنے منفیکردار کے بے نقاب ہونے کا خطرہ لاحق ہے۔ اس وقت بھارت انسانی حقوق کی پامالی، مذہبی انتہا پسندی اور اقلیتوں سے امتیازی سلوک کی وجہ سے دنیا میں بدنام ترین ملک بن چکا ہے۔ داخلی انتشار اور عالمی سطح پر تنہائی کے احساس نے بھارتی حکومت کو مزید پریشان کر دیا ہے۔ کشمیر پر غاصبانہ قبضے کے بعد دیگر ریاستوں میں عدم تحفظ بڑھا ہے اور آزادی کی تحریکیں زور پکڑنے لگی ہیں۔ یہ تمام بھارت کی تخریبی سوچ اور منفی رویے کا نتیجہ ہے۔ چین کی وجہ سے اگرچہ امریکہ بھارت کے کئی جرائم پر پردہ ڈالتا ہے، لیکن افغانستان میں امن کے حوالے سے بھارتی مذموم منصوبہ جان کر ہی امریکہ نے بھارت کو شٹ اپ کال دی تھی اور مذاکرات کے عمل سے باہر نکال دیا تھا لیکن اس کے باوجود اب بھی وہ اپنے مذموم مقاصد کے حصول کی کوشش کر رہا ہے۔