اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں۔۔۔

اور اب تو ہر نیا دن نئے مسائل اور نئی الجھنیں لے کر طلوع ہو رہا ہے،معاشرتی اور معاشی بے چینی سے لے کر سیاسی اور ریاستی پیچیدگیوں تک ایک ختم نہ ہونے والا اضطراب ہے کہ فربہ ہوتا چلا جا رہا ہے، چلئے ’رموز مصلحت ِ ملک خسروان دانند‘ مگر گرد و پیش جو ایک خوف بڑھتا جا رہا ہے وہ تو میرا مسئلہ ہے،وبا کے اوائل میں جس ڈر اور خوف نے اچانک جکڑ لیا تھا اس کے چنگل سے آزاد کیا ہوئے کہ پھر وبا کے دوسرے پھیرے میں ذرا بھی احتیاط نہ کی وہ تو خیر ہوئی کہ وبا نے بھی ہاتھ ہولا رکھا ہوا تھا، اس لئے وبا کے دوسرے پھیرے کے برے اثرات اور دورانیہ بہت کم رہا مگر اس کا بڑا نقصان یہ ہوا کہ اب جب وبا اپنے تیسرے وزٹ پر آئی تو یار لوگ اسے سیریس لینے پر کسی طور آمادہ ہی نہیں ہو رہے تھے، اور سرکار کی طرف سے مسلسل احتیاط کی اپیلوں کو ”شیر آیا،شیر آیا“ جتنی اہمیت بھی نہیں دے رہے تھے، جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ وبا کو کھل کھیلنے کا خوب خوب موقع مل گیا،اور اب کوئی دن نہیں جاتا کہ اس کے شکار کی تعداد میں تشویش ناک حد تک اضافہ نہ ہو رہا ہو۔ ہر چند احتیاط اب بھی نہیں ہو رہی ہے مگر پھر بھی ڈر اور خوف کا سانپ ہر آنگن میں پھنکارنا شروع ہو چکا ہے، اور اس کی وجہ یہ بھی ہے کہ اطراف سے روز انہ ایک تواتر سے بری خبریں مل رہی ہیں، جس سے ہر دل میں ایک پکڑ دھکڑ شروع ہو چکی ہے، مگر سماجی رشتوں اور رابطوں کے جال میں پھنسے ہوئے ہم تم لاکھ چاہنے پر بھی باہر نہیں نکل سکتے، کوئی بہر مصافحہ ہاتھ آگے بڑھائے یا معانقہ کے لئے دونوں بازو پھیلائے سامنے آئے تو ہمارے پاس بجز اس کے کوئی چارہ نہیں ہو تا کہ ہم بھی اسے اتنی ہی گرمجوشی سے ملیں،بھلے سے بعد میں اس کا جو بھی نتیجہ نکلے، کم از کم دوستی اور رشتہ تو بحال رہتا ہے، حالانکہ ہر شخص کے دل میں ”انہونی“ کا خوف تو موجود رہتا ہے مگریہ بات یار لوگوں کو مردانگی کی شان کے خلاف لگتی ہے اگر کوئی یہ کہہ دے ”کچھ بھی نہیں ہے بزدل آدمی ایسے ہی خوف سے مرے جارہے ہو‘ بس ہماری انا ہمیں وہ کبوتر بنا دیتی ہے جو بلی کو دیکھ کر آنکھیں بند کر کے سمجھتا ہے کہ اب بلی مجھے نہیں دیکھ سکتی۔ بس ہماری یہ بے خوفی ہی وبا کا کام آسان کر دیتی ہے، پھر ہماری چھوٹی سکرین پر بھی عجب عجب تماشے دکھائے جاتے ہیں ِ،کہ فاصلے سے رہنے کی تلقین کرنے والے زعما خود ذرا بھی احتیاط نہیں کرتے اور کیمروں کے سامنے ایک جم غفیر میں کھڑے ہو کر ماسک لگائے بغیر ایک دوسرے کے لتے لے رہے ہوتے ہیں، حالانکہ وہ یہ جانتے ہیں کہ اس سماج کی خوئے بد کو تو محض بہانے درکار ہوتے ہیں، حتی کہ وبا کے پہلے پھیروں میں نقصان اٹھانے والے بھی سب کچھ بھول چکے ہوتے ہیں، کبھی کہا تھا۔
 یہ دل پچھلا خسارہ بھول بیٹھا
 پھر اس سے دوستانہ چاہتا ہے
 بس یہی رویہ ہے جس میں کسی قسم کی تبدیلی نہیں ہو رہی، اور اس کا نتیجہ یہی ہے کہ بری خبروں میں اضافہ ہو رہا ہے، جس سے خوف اور ڈر کی عمومی کیفیت روز بہ روز گھمبیرہوتی جارہی ہے، اور گزشتہ چند ہفتوں میں ہم نے کیسے کیسے قیمتی لوگ کھو دئیے، ان میں سے ایک دوست عزیز ناصر خان درانی بھی تھے۔ جو کہ ایک دبنگ پولیس آفیسر کے طور پر معروف رہے، خصوصا ان کی شہرت اس حوالے سے بھی تھی کہ و ہ فرائض کی ادائیگی میں غفلت پرتنے اور بد انتظامی کے مرتکب پولیس افسروں کے سخت خلاف تھے، لیکن دوسری طرف وہ پولیس اور عام آدمی کے درمیان صدیوں پر محیط فاصلہ کو بھی پاٹنے کے لئے انقلابی اقدام کیا کرتے تھے، وہ کم وبیش چار برس خیبر پختونخوا کے انسپکٹر جنرل آف پولیس کے طور پر تعینات رہے اور اس دوران اس صوبے میں بھی عوام اور پولیس کے مابین دوریوں اور غلط فہمیوں کو ختم کرنے کے مسلسل کام کرتے رہے چنانچہ انہوں نے نہ صرف پولیس تک رسائی کے سسٹم متعارف کرایا بلکہ عوام سے براہ راست رابطہ قائم کرنے کے لئے ”آئی کال“ پر چوبیس گھنٹے خود شکایات سننے کا اہتمام بھی کیا، اسی طرح ٹریفک وارڈنز کو عوام کی نفسیات سے آ گہی کے لئے کورسز کااہتمام بھی کیا، میری ان سے ایسی تقریبات میں بار ہا ملاقاتیں ہوئیں کہ دوست عزیز افسر برائے تعلقات عامہ ریاض یوسفزئی ایسے موقعوں پر تواتر سے مدعو کرتے تھے، مگر یہ رسمی ملاقاتیں ایک بار قربت میں بدل گئیں جب پولیس لائن میں رمضان المبارک کے مہینے میں انہوں نے اپنے پریس کے دوستوں کے لئے ایک افطار ڈنر کا اہتمام کیا تھا، میں بھی شریک تھا اور کچھ دوستوں کے ساتھ ایک میز پر افطاری کے لئے بیٹھا تھا، افطاری کے بعد با جماعت نماز مغرب کے لئے وہیں لان میں صفیں بچھائی گئی تھیں، نماز سے فارغ ہوا تو ایڈیشنل آئی جی پی میاں آصف مجھے اس میز کی طرف لے آئے جہاں ناصر خان درانی بیٹھے تھے، اْس وقت اے وی ٹی خیبر سے جڑے ہوئے دوست جمشید علی خان بھی اسی میز پر آ گئے، چند دوست اور بھی تھے میاں آصف نے میرا تعارف کرانے کے لئے ابھی بات شروع ہی کی تھی کہ ناصر خان درانی نے انہیں روک کر اور ہنس کر کہا،میں انہیں جانتا ہوں بلکہ میں تو ان کے کالم پڑھ کر اپنی اردو بہتر بناتا ہوں، میں نے اسے ایک عمدہ جوک قرار دیا،جمشید علی خان نے کہا کہ یہ تو ہمارے بھی استاد محترم ہیں اس کے بعد پھر بہت ملاقاتیں رہیں خصوصا جب ”ڈی آر سی“ (مصالحتی جرگہ) کا قیام عمل میں لایا گیا اور کاروان کے خالد ایوب سمیت ہم تیس کے لگ بھگ دوستوں نے بطور ممبر (جج) باقاعدہ حلف اٹھا یا تھا تو اس دن انہوں نے بہت دلسوزی سے عام آدمی کی مشکلات کا ذکر کیا تھا اور ایک بات میں نہیں بھولتا جب انہوں نے کہا تھا کہ آپ پولیس سٹیشن جائیں گے تو بہت سی بے قاعدگیاں نظر آئیں گی مگر پلیز انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اپنی عدالت پر توجہ دیں، اور چائے کی میز پر مجھے کہا آپ بے شک اسے میرے ساتھ شئیر کریں،لیکن ان بے قاعدگیوں کو ٹھیک ہونے میں وقت لگے گا۔ پولیس ویب سائٹس پر بھی بہت بات ہوتی تھی، جب وہ یہاں سے چلے گئے تو بدقسمتی سے پھر رابطہ نہیں ہوا، خیبر پختونخوا سے جانے کے بعد مجھے ایک بار ان کا پیغام ریاض یوسفزئی کی وساطت سے ملا یہ سولہ جولائی دو ہزار سترہ کی بات ہے میرے پاس وہ میسج محفوظ ہے جس میں انہوں نے ریاض یوسفزئی کو لکھا تھا کہ ”میری طرف سے پولیس کے حوالے سے لکھے گئے ان کے بہت عمدہ کالم پر بہت شکریہ اور احترام پہنچا دیجئے“ مجھے کچھ دن پہلے دوست عزیز سابق آئی جی پی خیبر پختونخوا محمد سعید خان کا میسج بھی آ یا تھا کہ میرے جانے کے بعد یہ پہلا کالم ہے جس میں آپ نے مجھے یاد کیا ورنہ دوست تو بھول ہی گئے۔ایسے ہی خیال آیا کہ اب ناصر درانی کے حوالے سے لکھے گئے کالم کا پیغام کون بھیجے گا۔لیکن میں نے بھی تو یاد کرنے میں بہت دیر کردی ہے۔فراق گورکھپوری نے کہا ہے۔
 ایک مدت سے تری یاد بھی آئی نہ ہمیں
 اور ہم بھول گئے ہوں تجھے ایسا بھی نہیں