حکومت اور اعلیٰ تعلیم۔۔۔۔

پاکستان کے معرض وجود آنے کے بعد جس بات کی بہت ضرورت محسوس کی گئی وہ  تعلیم تھی۔ اس لئے کہ متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کو بوجوہ تعلیم سے دور رکھا گیا۔  اسلئے آزادی کے فوراً بعد علاقے میں تعلیم کے حصول کے حوالے سے  اساتذہ کی بہت زیادہ کمی محسوس کی گئی۔ جو بھی اساتذہ موجود تھے انہوں نے پوری کوشش کی اور بہت کم عرصے میں ایک بڑی کھیپ مسلمان اساتذہ کی میسر ہو گئی۔ اس کے بعد تو اللہ کا فضل ہو اکہ ایک بڑی تعداد طلبا ء کی بھی میدان میں آ گئی اور اساتذہ کی کمی بھی پوری ہوتی گئی اور اب یہ صور ت حال ہے کہ پاکستا ن میں اعلی تعلیم کے حصول کیلئے بہت سی یونیورسٹیاں سرکاری سطح پر اور  بہت سی یونیورسٹیاں نجی سطح پر بھی موجود ہیں ایک وقت تھا کہ جب بھی سیاسی حضرات انتخابات میں ووٹ مانگنے نکلتے تھے تو وہ اپنے جیتنے پر گاؤں اور شہروں میں بجلی پہنچانے کا وعدہ کیا کرتے تھے اب صورت حال یہ ہے کہ جب بھی کوئی سیاست دان کسی علاقے میں جاتا ہے چاہے وہ وزارتی حیثیت میں ہو یا ووٹ مانگے کیلئے  وہ اُس علاقے میں ایک یونیورسٹی کے قیام کا وعدہ ضرور کرتا ہے۔  ہمارے پنجاب کے وزیر اعلیٰ صاحب تو  ہر ضلع میں یونی ورسٹی کے قیام کا ارادہ رکھتے ہیں۔ اسی طرح ہمارے  وزیر اعظم صاحب بھی ملک میں یونیورسٹیوں کے قیام میں  دلچسپی رکھتے ہیں اور وہ بھی جہاں جاتے ہیں وہاں یونی ورسٹی کے قیام کا وعدہ ضرور کرتے ہیں بلکہ وہاں یونیورسٹی  کیلئے عملی اقدام بھی کرتے ہیں جو ایک بہت ہی اہم بات ہے۔ یونیورسٹیاں ملک میں اعلیٰ تعلیم کیلئے جتنی ضروری ہیں اس سے انکار تو نہیں کیاجا سکتا  مگر ایک بات جس کی ضرورت بہت زیادہ ہے وہ ایک یونیورسٹی کیلئے  جو ضروریات  مہیا کرنی ہیں اس کا بھی خیال ہونا چاہئے۔ایک یونیورسٹی کیلئے جو قطع زمین درکار ہے اس کا بھی انتظام ہونا چاہئے اور   اس کے بعد مختلف شعبہ جات کیلئے  عمارات کی ضرورت سے بھی انکار نہیں کیا جا سکتا  اور یونیورسٹی کے طلباء  و طالبات کیلئے ہاسٹل کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ سٹاف  اور سٹاف کیلئے  رہائش کا بندوبست بھی ضروری ہوتا ہے۔یہ سارا کچھ آسان نہیں ہوتا سٹاف کا حصول بھی ایک مسئلہ ہوتا ہے اس لئے کہ ملک میں اعلیٰ تعلیم یافتہ خواتین و حضرات کی بھی ابھی تک کمی ہے۔ جو یونیورسٹیاں اور پوسٹ گریجویٹ کالج  ملک میں کام کر رہے ہیں ان بھی ان ضروری  چیزوں کی کمی ہے۔ سرکاری یونیورسٹیوں میں طلباء کیلئے رہائش کی بھی کمی ہے اور سٹاف بھی پورا نہیں ہے۔ جس سے تعلیمی کاموں میں رخنہ پڑ رہا ہے جس طرح ہماری  پشاور یونیورسٹی کی  حالت ہے اور جس طرح یونیوورسٹی کیلئے طلباء یونیورسٹی کی مالی حالت کے لئے تگ دو کر رہے ہیں اگر یہ سچ ہے تو افسوس ہی کیا جا سکتا ہے۔ گو تعلیم صوبائی مسئلہ ہے مگر چونکہ صوبے میں حکومت بھی مرکز ہی کی ہے اس لئے ہماری تعلیمی درسگاہوں کے لئے  ضروری ہے کہ خود خان صاحب اس طرف  نظر کرم کریں اور اس صوبائی معاملے کو بھی سدھارنے کی کوشش کریں‘ اسی طرح جو  یونیورسٹیاں اس صوبے میں ہیں اُن کی معاشی حالت کی طرف بھی مرکزی حکومت توجہ دے  تا کہ ہمارے پس ماندہ صوبے کے طلباء بھی سکون کے ساتھ اپنی تعلیم کی طرف توجہ دینے کے قابل ہو سکیں۔ یونیورسٹیوں کا  مالی بحران ایک سنگین صورت حال ہے اس لئے صوبے کی ساری یونیورسٹیوں کی مالی حالت کو سدھارنا بھی نہ صرف صوبائی بلکہ مرکزی حکومت کی بھی ذمہ داری ہے۔