ہمسایہ ملک بھارت کے عوام کی کورونا کے ہاتھوں ہلاکت خیزی پر پاکستانی حکومت اور عوام کا جذبہ ہمدردی قابل ستائش ہے لیکن اپنے ملک میں، جہاں ہمیں ایسے جذبے کے عملی اظہار کی اشد ضرورت ہے، ایسا کیوں نظر نہیں آتا۔ بھارت میں کورونا کی تباہ کاریاں اور حکومتی انتظامات ناکافی ہونے کے حوالے سے ریگولر میڈیا اور سوشل میڈیا کے ذریعے جو صورتحال سامنے آئی ہے، یہ نہ صرف قابل تشویش ہے بلکہ ہمارے لیے باعث عبرت بھی ہونی چاہئے۔اس وقت بھارت میں آکسیجن کی کمی کا مسئلہ درپیش ہے اور اس کی بڑی وجہ لوگوں کا آکسیجن سلنڈر خرید کر گھروں میں رکھ لینا ہے۔ یہ ایک طرح کی ذخیراندوزی ہے جو کسی بھی جنس کی قلت پیدا کر سکتی ہے بھارت ہم سے 6 گنا زیادہ آبادی کا ملک ہے وہاں آبادی کے لحاظ سے طبی سہولیات بھی موجود ہیں بھارت اینٹی کورونا ویکسین تیار کرنے والے ممالک میں بھی شامل ہے لیکن وبائی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے میں اس لیے ناکام رہا کہ وہاں عوام کو حفاظتی تدابیر اختیار کرنے پر مجبور نہیں کیا جا سکا۔ سوشل میڈیا پر دکھائی جانے والی ویڈیوز میں مریض سڑکوں پر پڑے نظر آتے ہیں۔ یہ بھیانک صورت حال دیکھ کر ہی پہلے ایدھی فاؤنڈیشن نے بھارت کو ایمبولینس دینے کی پیشکش کی، پھر حکومت نے وزارت خارجہ کے ذریعے وینٹیلیٹر اور دیگر طبی سہولیات دینے کی پیشکش کی گئی۔ وزیراعظم نے بھی اظہار ہمدردی کیا اور عوام کی طرف سے تو سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ بن گیا ہے. یہ بہت اچھا جذبہ ہے، لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس سے زیادہ اس جذبہ کی ہمیں اپنے ملک میں ضرورت ہے۔ جہاں کورونا کا پھیلاؤ تیزی کے ساتھ بھارت جیسے حالات پیدا کر رہا ہے۔ یہ خطرناک حد کو چھو رہا ہے حد ہے کہ عوام سے ایس او پیز پر عمل کرانے کیلئے پولیس کے ساتھ فوج کو استعمال کرنا پڑا ہے۔ لوگ ہسپتالوں سے جنازہ بھی اٹھا رہے ہیں اور خود ماسک بھی پہننے کو تیار نہیں، ایک طرف صف ماتم بچھی ہے تو دوسری طرف عید شاپنگ کیلئے مقابلہ جاری ہے۔ افسوسناک بات یہ ہے کہ این سی او سی کے سربراہ، اسد عمر خواتین سے کہہ رہے ہیں کہ وہ اپنی عید کی خریداری دن کے اوقات میں کرلیں، رات کو بازار نہیں کھلیں گے، جبکہ تاجر بضد ہیں کہ ساری رات دکان کھولیں گے، کیا ہمیں کوئی احساس ذمہ داری ہے کہ نہیں، جو حالات نظر آرہے ہیں، اگر ایسے ہی چلتا رہا تو عید منانے کو کون بچے گا۔ پاکستان میں ابھی آکسیجن کی کمی نہیں آئی، لیکن ایسی خبریں بھی ہیں کہ امیر لوگ آکسیجن سلنڈر خرید کر گھروں میں رکھ رہے ہیں، یہ خود غرضی کی بدترین مثال ہے، اور یہ کوئی پہلی بار نہیں ہورہا، ہمارے ہاں کسی بھی چیز کی ممکنہ کمی کی افوا پر، صاحب حیثیت لوگ ضرورت سے زیادہ خرید کر سٹور کر لیتے ہیں۔ یہ بات معلوم ہونی چاہئے کہ کورونا کے مریض کو اگر خون میں آکسیجن کی کمی کا سامنا ہے تو پھر ایک آدھ سلنڈر سے گزارا نہیں ہوتا، یہ اللہ تعالی کا نظام ہے، جو مفت میں آکسیجن دیتا ہے اور بلا امتیاز دیتا ہے، اسی ذات پر بھروسہ رکھ کر بیماری سے بچنے اور دوسروں کو بچانے کی کوشش کرنا ہی اس کا واحد حل ہے۔ ہمارے ہاں کم علمی سے زیادہ وہ”جہالت“ بڑا مسئلہ ہے، جس کا مظاہرہ اکثر پڑھے لکھے افراد بھی کرتے ہیں، پہلے کورونا وائرس کے حوالے سے کہا جاتا تھا کہ یہ کوئی بیماری ہی نہیں، اب ویکسین کے حوالے سے منفی پروپیگنڈہ جاری ہے، عجیب بات ہے کہ ہم اپنے ایک دن کے بچوں کو حفاظتی ٹیکا ضرور لگواتے ہیں، لیکن خود ساٹھ سال میں بھی لگوانے سے ڈرتے ہیں، حالانکہ ویکسین کسی بھی بیماری کے خلاف ہو، وہ اثرات میں ایک جیسی ہی ہوتی ہے، بچوں کو بھی اس سے بخار یا تکلیف ہوتی ہے، مگر ہم اتنا برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ یہ بات ثابت شدہ ہے کہ چینی ویکسین دنیا میں محفوظ ترین اور موثر ترین ہے، ہم جہاں تک ہوسکے منفی پروپیگنڈوں کی تردید اور ویکسینیشن کی افادیت اجاگر کرنے میں دوسروں کی رہنمائی کریں‘ دوسروں کی خیر خواہی اور ان کی جان بچانے کیلئے احتیاط کرنا بہت ثواب کا کام ہے، اگر ہم رمضان کے دوران ہی اس احتیاط کو دنیاوی ضرورت سے زیادہ، دینی عمل سمجھ کر پورا کریں، تو بڑی حد تک اس وبا کا پھیلاؤ روکا جا سکتا ہے۔