یوں تو ہر متعدی بیماری کا ایک خوف انسان کے ذہن میں ہوتا ہی ہے۔ کچھ متعد ی بیماریاں کہ کل تک جن کا خوف انسانی ذہن پر مسلط تھا اُن میں سے بیشتر کا تو اب کہیں نام و نشان ہی نہیں مگر انسان جس دنیا میں رہ رہا ہے وہاں کسی نہ کسی طرح سے اس کو یاد دلانے کیلئے کچھ کوئی نہ کوئی متعدی بیماری آ ہی جاتی ہے کہ جو انسان کو خوب تھکا دیتی ہے مگر انسان اس کا کوئی نہ کوئی علاج ڈھونڈ ہی لیتا ہے اور اس بیماری کو اس دنیا سے رخصت کر دیتا ہے۔ آج کل جس متعدی بیماری نے انسان کو گھیرے میں لے رکھا ہے وہ کورونا ہے۔ کورونا کا علاج ویسے تو ممکن ہے مگر اس سے بچاؤ کیلئے انسان کوشاں ہے او راس کیلئے بچاؤ کے ٹیکے لگائے جا رہے ہیں۔ کسی بھی ہسپتال میں چلے جائیں وہاں اس کے بچاؤ کے ٹیکے لگوانے کیلئے ایک جم غفیر آپ کو ملے گا۔ صبح سے دو بجے تک اور پھر رات کو دس بجے کے بعد اس کے بچاؤکے ٹیکے لگائے جاتے ہیں۔ان اوقات میں اگر دیکھیں تو ایک جم غفیر ہسپتال میں پایا جاتا ہے۔ صبح دس بجے سے لوگ ہسپتال پہنچ جاتے ہیں اور تقریباً دو بجے تک لوگوں کو بچاؤکے ٹیکے لگائے جاتے ہیں اور چونکہ آج کل رمضان کا مہینہ ہے اس لئے دو بجے کے بعد شام روزہ کھولنے کے بعد تک تو کچھ آرام رہتا ہے اور پھر روززہ کھولنے کے بعد ایک دفعہ پھر اس وبا کے بچاؤ کے ٹیکے لگنے شروع ہو جاتے ہیں جو دیر تک جاری رہتے ہیں۔ ان اوقات میں اس قدر بھیڑہوتی ہے کہ انسان حوصلہ کھو دیتا ہے۔ کوئی کب تک روزہ رکھ کر اس انتظار میں بیٹھ سکتا ہے کہ اُس کا نمبر آئے اور وہ ٹیکہ لگوا کر جائے۔ کچھ تو پہلی دفعہ کا ٹیکالگواتے ہیں اور کچھ دوسری بار کیلئے آئے ہوتے ہیں اور آپ کو اپنی باری کا دیر تک انتظار کرنا پڑتا ہے اور کچھ لوگ تو نمبر نہ آنے کی وجہ سے یا نمبر کیلئے صبر نہ کرنے کی وجہ سے واپس لوٹ جاتے ہیں اور دوسرے دن پہلے نمبر حاصل کرنے کیلئے سویرے ہی قطاروں میں لگ جاتے ہیں۔ وہ تو شکر ہے کہ حکومت نے ان ٹیکوں کا مفت فراہمی کا انتظام کیا ہوا ہے ورنہ اس کا ٹیکہ اتنا مہنگا ہے کہ ہرکوئی اسے افور ڈ ہی نہیں کر سکتا۔ کوشش تو یہی کی جاتی ہے کہ سب سے پہلے ہسپتال پہنچا جائے تا کہ جلدی ٹیکہ لگوایا جا سکے۔ ذرا سی دیرہو جائے تو پھر انتظار کی ایک مشکل گھڑی گزارنی پڑ جاتی ہے۔ تا ہم شکر ہے کہ اس بیماری کے بچاؤکے ٹیکوں کا انتظام حکومت کی طرف سے وافر مقدار میں ہے اس لئے تقریباً ایک بہت بڑی تعداد میں لوگ اس سے مستفید ہو رہے ہیں اور ہاں اس کے لئے اگر انتظار بھی ہوا ہے تو لوگ اتنے تنگ نہیں ہوتے جیسے کہ عام طور پر انتظار والی جگہ پرلوگ عموماً حواس پر قابو نہیں پا سکتے اور کسی نہ کسی بہانے ڈاکٹروں سے یا عملے سے یا انتظار میں بیٹھے لوگوں سے جھگڑا مول لے ہی لیا جاتا ہے۔ بعض دفعہ باری کے آگے پیچھے ہونے سے جھگڑے چل نکلتے ہیں اوربعض دفعہ دیر تک انتظار بھی انسان کو بے حوصلہ کر دیتا ہے جس سے عموماً تو تکار چل نکلتی ہے مگر اس انتظار میں دیکھا گیا ہے کہ تو تکار کا کم ہی موقع نکل رہا ہے اس لئے کہ لوگ جانتے ہیں کہ جو بھی اس قطار میں لگاہے وہ اپنے بچاؤ ہی کیلئے آیا ہوا ہے اور اگر جھگڑ اکیا جائے گا تو پھر باری آنے میں اور بھی دیر ہو سکتی ہے اسی لئے لوگ بڑے اطمینان سے اپنے باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں اور دیکھا گیا ہے کہ کوئی بے نمبری بھی نہیں کرتا دکھائی دیتا اور سب ہی حوصلے سے اپنی باری کا انتظار کر رہے ہوتے ہیں۔ شائد اس کی وجہ یہ ہو کہ روزے میں اور کام تو کسی کاہوتا نہیں بس انتظار میں روزے کا وقت بہتر گزر جاتا ہے اسی لئے کوئی باری کے آگے پیچھے ہونے سے سیخ پا بھی نہیں ہوتا کہ چلو کہ روزے کا وقت اور بہتر گزر رہا ہے۔ روزے میں وقت گزاری بھی تو ایک بڑا مسئلہ ہوتا ہے اور اس انتظار میں جو وقت گزرتا ہے وہ اور بھی اچھا گزر جاتا ہے اس لئے کہ نہ کھانے کی پرواہ ہے اور نہ پینے کی اور وقت گزارنا ہی اس صورت میں بڑی نعمت ہوتی ہے اور یوں انتظار میں اچھا وقت گزر جاتا ہے اور آرام سے انسان اپنا مقصد پورا کر کے واپس آ جاتا ہے۔