اس میں کوئی شک ہیں کہ بحیثیت مسلمان ہمارا یہ عقیدہ ہے کہ ہر مسلمان کو علم کے حصول کے لئے جد و جہد کرنی چاہئے متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں پر تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے تھے۔ اس لئے کہ انگریز نے حکومت مسلمانوں سے ہی چھینی تھی اور جانتے تھے کہ اگرمسلمانوں کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کیا گیا تو انہوں نے انگریز کی غلامی سے جان چھڑا لینی ہے۔ اس لئے کہ مسلمان اگر اپنے آپ کو پہچان جائے گا تو وہ کسی کا غلام نہیں رہے گا۔ اسی وجہ س اس دور میں مسلمانوں کیلئے تعلیم کے دروازے بند کر دیئے گئے تھے۔ لیکن بہت کم سہی مگر مسلمانوں نے اپنی میراث کو چھوڑا نہیں اور ا سی تعلیم یافتہ طبقے نے انگریز اور ہندو سے ہندوستان کے مسلمانوں کو نجات دلوائی اور ایک مسلمان حکومت پاکستان کے نام پر دنیا کے نقشے پر وجود میں آ گئی۔ متحدہ ہندوستان میں ایک عام مسلمان پہلے تو تعلیم حاصل کر ہی نہیں سکتا تھا اور اگر کر نے کے قابل بنایا گیابھی تھا تو وہ عام مسلمانوں تک علم نہیں پہنچا پایا‘ اسلئے کہ ایک عام مسلمان میں اتنی معاشی طاقت نہیں تھی کہ وہ علی گڑھ میں جا کر تعلیم حاصل کر سکتا۔ ایک تو مسلمانوں کی معاشی حالت بہت کمزور کر دی گئی تھی اور دوسرے سکولوں میں بھی ہندو اساتذہ مسلمانوں کو تعلیم کے حصول سے دل برداشتہ کرتے تھے۔ اس دور میں ہمارے صوبے میں اگر عام مسلمان پڑھنے کا شوق بھی رکھتا تھا تو وہ زیادہ سے زیاد ہ مڈل تک تعلیم حاصل کر سکتا تھا۔ بہت کم مسلمان میٹرک یا اس سے زیادہ تعلیم یافتہ تھے۔ ورنہ عام طور پرمسلمانوں کو پرائمری سے آگے پڑھنے سے منع کیا جاتا تھا۔ خود ہمارے صوبے میں چند ہی لوگ تھے جو میٹرک سے زیادہ پڑھے لکھے تھے اس لئے کہ اعلیٰ تعلیم کیلئے لاہور جانا پڑتا تھا جس کا خرچ ہر کوئی برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میٹرک تک کیلئے بھی ہمارے صوبے میں ہر شخص اخراجات برداشت کرنے کے قابل نہیں تھا۔ یہ تو پاکستان کے وجود میں آنے کے بعد ہوا کہ لوگوں نے بچوں کو پڑھانے کی طرف توجہ دی ورنہ مسلمان اگر کسی طرح مڈل پاس کر لیتا تو اسے ہی بہت سمجھا جاتا تھا۔ پاکستان کے معرض وجود میں آنے کے بعد تک بھی سکولوں کے استاد عام طور پر مڈل پاس ہی تھے۔ بہت کم استاد میٹرک پاس تھے اور گریجویٹ تو شاید کہیں ایک دو پورے صوبے میں ہوں گے۔ تعلیم کا رواج اس صوبے میں پاکستان بننے کے بعد آیا اور اب تو ما شا اللہ صوبے میں یونیورسٹیاں بھی بہت ہو گئی ہیں اور پوسٹ گریجویٹ کالجوں کی بھی بھر مار ہو گئی ہے اور نجی شعبے نے بھی تعلیم کو سنبھالا دیا ہے اور حکومت کے ساتھ ساتھ اس شعبے میں نجی تعلیمی اداروں کا بھی کلیدی کردا ر ہے۔