گزشتہ حکومت نے کچھ ایسی معاشی بارودی سرنگیں بچھا کر اقتدار چھوڑا تھا، جو حکومت کیلئے ہلاکت خیز ثابت ہوئیں۔ بدقسمتی سے ماضی میں ملک کیلئے کسی نے نہ سوچا اور نہ ہی ترقی کی کوئی پائیدار بنیاد قائم کی، جس سے ملک کی معیشت مستحکم ہوتی ہر کوئی اپنی سیاست کو دوام بخشنے کیلئے حکومت کرتا رہا۔ ڈنگ ٹپاؤ پالیسیاں اور عوام کی توجہ حاصل کرنے کے منصوبے شروع کیے گئے، اور ان کیلئے قرضوں کے پہاڑ ملک پر کھڑے ہوتے گئے۔ ان سب نمائشی اور فرمائشی اقدامات سے قرضوں کے پڑنے والے بوجھ نے موجودہ حکومت کیلئے مشکلات پیدا کیں۔ پھر 2019 کے اختتام پر دنیا میں کرونا وائرس نے جو تباہی پھیلائی، پاکستان بھی اس کی لپیٹ میں آگیا۔ گزشتہ سال سے کورونا ملکی معیشت کیلئے ناقابل بیان امتحان ثابت ہوا ہے، اس کے اثرات سے بھی روپے کی قدر میں کمی اور مہنگائی میں اضافہ ہوا۔ اگرچہ گذشتہ سال کورونا سے پاکستان میں باقی دنیا سے بہت کم نقصان ہوا، لیکن اس سال مارچ سے شروع ہونے والی تیسری لہر نے سارے حساب برابر کر دئیے ہیں۔ اور اب پھر ملک لاک ڈاؤن کی طرف جا رہا ہے یہ سب عوامل حکومت کی کارکردگی جانچتے ہوئے رعائتی نمبر تو دے سکتے ہیں، مگر حکومت کی کارکردگی کے حوالے سے مکمل اطمینان کی حالت بھی نہیں ہے بہت سے شعبوں میں اگر چہ اچھا کام ہوا ہے مگر بہت سے ایسے بھی ہیں جہاں نتائج حسب توقع نہیں ہیں۔ وزیراعظم بار بار یہ بات دہراتے ہیں کہ بہت سے مافیاز ان کے خلاف متحد ہیں، یہ حقیقت بھی ہے، 2019 میں عالمی سطح پر تیل کی قیمتیں کم ہونے کے بعد حکومت نے عوام کو ریلیف دینے کا فیصلہ کیا اور پیٹرول کی قیمت کم کردی، مگر تیل مافیا نے حکومتی فیصلے پر عمل کرنے کے بجائے مارکیٹ میں سپلائی بند کر دی، ایک ہفتہ تک حکومت بے بس اور عوام مجبور رہے، اس کی انکوائری رپورٹ آنے کے بعد موثر کاروائی کی ضرورت ہے،کسی نہ کسی مافیا کو نشان عبرت تو بنانا ہوگا تاکہ دوسرے اس سے عبرت حاصل کرسکیں۔ چاہے چینی مافیا ہو یا پٹرول اور دیگر اشیائے استعمال پر کنٹرول رکھنے والے، حکومت ہر حربہ استعمال کر چکی لیکن چینی 100 سے 110 روپے تک پہنچ گئی، پنجاب حکومت نے اپنے طور پر چینی کی قیمت 85 روپے کلو مقرر کی، لیکن اس پر عمل نہیں کرا سکی، سبسڈی پر جو چینی سستی دی جا رہی ہے، وہ عوام میں کورونا کے پھیلاؤ کا باعث بن رہی ہے، کیوں کہ سستی چینی کے لالچ میں لوگ کورونا سے بچاؤ کے ایس او پیز نظر انداز کر رہے ہیں، چینی کیلئے قطاروں پر عدالت عالیہ بھی ناراض ہے، مگر حکومت یہ قطاریں ختم نہیں کرا سکی۔ حکومت نے ایک ماہر معیشت دان کو وزیر خزانہ مقرر کیا اور وزیر اعظم نے یہ بھی ہدایت کی کہ آنیوالے بجٹ میں کوئی نیاٹیکس نہ لگایا جائے اور عوام کو سہولت دی جائے، لیکن وزیر خزانہ یا جو کوئی بجٹ بنائے گا، وہ دستیاب یا ممکنہ محاصل کی بنیاد پر ہی بنائے گا اور بجٹ کا پچاس فیصد اگر قرض کی قسطیں واپس کرنے میں چلا جائے تو عوام کو ریلیف کیسے ملے گی، ویسے بھی جب ہر ماہ بجلی کی قیمت بڑھتی ہے تو مہنگائی کیونکر قابو میں آسکے گی۔ ان سب عوامل کی موجودگی میں یہ بات واضح ہے کہ حکومت کو کھٹن اور مشکل چیلنجز درپیش ہیں جن سے عہدہ براہ ہوکر ہی وہ عوام سے آنے والے انتخابات میں دوبارہ ووٹ لے سکتی ہے۔