خفیہ رہنے کی بیماری۔۔۔

لوگوں کی نفسیات اور عادات و اطوار کا مشاہدہ کرکے انکی شخصیت کی پرکھ کرنا ایک نہایت دلچسپ مشغلہ ہے البتہ اپنی نفسیات کا تجزیہ کرکے اپنی شخصیت کو جان جانا قدرے دشوار ہے کہ آپ اپنے بارے میں غیر جانبدار نہیں رہ سکتے۔ کسی ایک شخص کے طور طریقوں کو جانچ کر اس کی شخصیت کی پرکھ کرنے کیلئے کتنی مدت درکار ہے؟ اس کے بارے میں حتمی طور پر کچھ نہیں کہا جاسکتا... ہوسکتا ہے کہ کسی شخص کے ایک فقرے سے آپ جان جائیں کہ اسکی خصلت کیسی ہے اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ برسوں کی آشنائی کے باوجود آپ آگاہ نہ ہوسکیں اور کوئی ایک موقع ایسا آئے کہ جب وہ آپکی توقعات کے برعکس کوئی ایسا ردعمل ظاہر کرے جو آپ کیلئے ایک صدمہ ہو اور آپ گہرے دکھ میں مبتلا ہوجائیں کہ میں اس شخص کو اب تک کیا سمجھتا رہا ہوں اور یہ تو میری توقعات سے سراسر برعکس نکلا…… چلئے ہم اس سلسلے میں زیادہ گہرائی میں نہیں جاتے روزمرہ کی معمول کی باتیں کرتے ہیں …… مثلاً کچھ لوگ ایسے ہوتے ہیں جو بے وجہ ”خفیہ“ رہنا پسند کرتے ہیں …… وہ آپ کے کسی سوال کا براہ راست جواب دینے سے کنی کتراتے ہیں اور مقدور بھر کوشش کرتے ہیں کہ آپ انکی ذات کے کسی پہلو سے آگاہ نہ ہوجائیں...میرے ایک رشتے کے چچا ہوتے تھے انہیں بھی ”خفیہ“ رہنے کی بیماری تھی…… اگر وہ کوئی رسالہ پڑھ رہے ہیں اور اوپر سے آپ آگئے ہیں تو وہ فوری طور پر رسالے کا سرورق چھپانے کی کوشش کریں گے…… یہ نہیں کہ چچا جان مرحوم کوئی قابل اعتراض رسالے پڑھنے کے شوقین تھے اس لئے انہیں چھپاتے تھے …… وہ تو خاصے دیندار شخص تھے…… عادت سے مجبور تھے…… رسالہ بے شک دینی علوم سے متعلق ہو‘ وہ اسے بھی آپ سے چھپاتے پھرتے تھے…… ایک روز میں ان کے کمرے میں داخل ہوا تو مرحوم سیب کھا رہے تھے…… میں نے یونہی جیسا کہ گفتگو شروع کرنے کا رواج ہے ’پوچھا …… چچا جان سیب کھا رہے ہیں ……ذرا ہڑبڑا کر کہنے لگے……اچھا!میں نے پھر پوچھا کہ چچا جان سیب کھا رہے ہیں ……کہنے لگے…… تمہیں کیا لگتا ہے……میں نے کہا مجھے تو یہی لگتا ہے کہ آپ سیب کھا رہے ہیں …… جواب میں صرف اتنا کہا…… اچھا!میں جانتا تھا کہ وہ اپنی عادت سے مجبور اقرار نہیں کریں گے کہ ہاں میں سیب کھا رہا ہوں اس لئے میں نے لطف لینے کیلئے بات آگے بڑھائی کہ چچا جان پھر آپ سیب کھارہے ہیں ……مسکرانے لگے…… تمہارا کیا خیال ہے کہ میں کیا کھارہا ہوں ……میں نے بھی مسکرا کر کہا کہ جی مجھے تو یہی لگتا ہے کہ آپ سیب کھا رہے ہیں ……نہایت سنجیدگی سے بولے…… اگر تمہیں ایسا لگتا ہے تو میں اس بارے میں کیا کہہ سکتا ہوں …… یعنی پھر بھی اپنی زبان سے اقرار نہیں کیا…… حالانکہ اس میں کیا حرج ہوسکتا ہے کہ آپ مان لیں کہ آپ سیب کھارہے ہیں ……اسی نوعیت کی ایک ”خفیہ“ خاتون ہمارے عزیزوں میں سے ہیں …… نہایت ہی خوش مزاج اور محبت کرنے والی خاتون ہیں لیکن انہیں بھی یہی بیماری لاحق ہے…… آپ ان کے گھر جاتے ہیں وہ سر آنکھوں پر بٹھاتی ہیں‘خاطر تواضع کرتی ہیں اور آپ ادھر ادھر نظر دوڑا کر ان کے خاوند کے بارے میں پوچھتے ہیں کہ خان صاحب کہاں ہیں …… اس سوال پر مسکراتی رہیں گی اور آپ پھر سے سوال دوہراتے ہیں کہ بھابھی خان صاحب کہاں ہیں...ادھر ادھر نگاہ کرکے کہیں گی...بس یہیں ہیں...آپ پوچھیں گے کہ...گھر میں ہی ہیں یا کہیں باہر گئے ہیں...جہاں بھی ہیں‘ کتنی دیر میں آجائیں گے...وہ مسکرانے لگتی ہیں...کتنی دیر لگ سکتی ہے...آپ یہ سموسے کھائیں ناں... بعد میں بچے انکشاف کرتے ہیں ابو تو ساتھ والے کمرے میں نماز پڑھ رہے تھے یا کاروبار کے سلسلے میں پشاور گئے ہوئے تھے...سب سے پرلطف صورتحال تب جنم لیتی ہے جب کوئی خاتون یونہی خوشگوار ہونے کی خاطر کہتی ہیں کہ آپ کا یہ سوٹ جو آپ نے زیب تن کررکھا ہے بہت عمدہ ہے‘ کہاں سے لیا تھا؟وہ اس سوال کا جواب دینے کی بجائے نہایت اطمینان سے مسکراتے ہوئے کہتی ہیں‘آپ کو پسند آیا...وہ خاتون کہتی ہیں... جی ہاں... اسی لئے تو پوچھ رہی ہوں کہ کہاں سے لیا تھا؟کچھ یاد نہیں آرہا کہ کہاں سے لیا تھا... یہیں کہیں سے لیا تھا……اس پر وہ خاتون پوچھ بیٹھتی ہیں کہ اچھا یہ بتائیے کہ سلوایا کس سے تھا...ہماری عزیزہ اسی اطمینان سے جواب دیتی ہیں... درزی سے...”کون سے درزی سے؟“ ان خاتون کا پارہ چڑھنے لگتا ہے...”مجھے درزیوں کے نام یا دنہیں رہتے...‘”آپ ناپ دینے کیلئے اس کی دکان پر تو گئی ہوں گی……“”ہاں شاید گئی تھی……“ وہ بدستور مسکراتے ہوئے کہتی ہیں...