تعلیم کا حشر نشر۔۔۔۔

وفاقی وزیر تعلیم ہر روز تعلیم کے متعلق کوئی نہ کوئی بیان دیتے ہی رہتے ہیں۔ وفاقی وزیر تعلیم کو جو درد اپنے بچوں کیلئے ہے اس کا بھی سب کو احساس ہے۔ ایک طرف بچوں کی تعلیم کا مسئلہ ہے تو دوسری طر ف بچوں کی صحت بھی مطلوب ہے۔ اب پالا ایسی بیماری سے پڑ گیا ہے کہ جو کسی صورت معافی بھی نہیں دے رہی اور اس کا حملہ بھی جس طرح ہے اس طرح بچوں کو سکول بھی نہیں بھیجا جا سکتا۔ یعنی فارسی کے محاورے نہ جائے ماندن و نہ پائے رفتن کا عملی نمونہ بنے ہوئے ہیں۔ نہ بچوں کی تعلیم کا درد ان کو سانس لینے دیتاہے اور نہ کورونا کا ڈر۔ ہر دوسرے دن وہ صوبائی وزرا ء تعلیم کے ساتھ میٹنگیں کر رہے ہیں اور حالات کا جائزہ لے رہے ہیں اور اگر ایک دن سکول کھولتے ہیں کہ چلو چھوٹے بچے نہ سہی بورڈ کے امتحانوں والے بچے ہی سہی مگرپھر پتہ چلتا ہے کہ حالات پھر سے ابتر ہو رہے ہیں۔ خیر اب دیکھتے ہیں کہ اونٹ کس کروٹ بیٹھتا ہے۔ تا ہم یہ حقیقت ہے کہ نہ صرف شفت صاحب بلکہ دیگر وزراء تعلیم بھی اس بات پر پریشان ہیں کہ بچوں کے سال ضائع ہو رہے ہیں۔ شفقت صاحب نے امتحانات کا شیڈول تبدیل کروانے کی کوشش تو کی ہے اور سکولوں میں بھی عید تک چھٹیاں کروا دی ہیں مگر کیا پتہ کہ عید کے بعد کورونا کی چوتھی لہر سے پالا پڑ جائے ابھی تو تیسری نے جانوں کو ہڑپ کرنا شروع کر رکھا ہے۔ اس وقت صورت حال یہ ہے کہ وزیر اعظم صاحب مزدوروں کی ہمدردی میں مکمل لاک ڈاؤن سے گریز کررہے ہیں اورکورونا ان کی عوام کو معاف نہیں کر رہا۔ ایک تو وبا کے باوجودبھی بازاروں میں چہل پہل تو رہتی ہی ہے مگر اب کے چینی نے اور بھی مسائل پیدا کر دیئے ہیں، جس مسئلے کو دیکھ کر سکولوں کو بند کیا جا رہا ہے وہ مسئلہ تو چینی نے عوام کے ساتھ بنا دیا ہے۔ سکولوں کو اس لئے بند کیا جا رہا ہے کہ وہاں بچوں کا اکٹھ ہو گا اور کورونا کو حملے کا موقع مل جائے گا۔ مگر دوسری جانب لوگ چینی پر ٹوٹے پڑے ہیں اور جو مجمع رمضان بازاروں میں لگ رہا ہے وہ اس سے تو کورونا کے مزے بن رہے ہیں اور جس طرف حالات جا رہے ہیں لگتا ہے کہ ہم اپنے حریف ہندوستان کے ساتھ دو بدو مقابلے میں لگے ہیں۔ مگر ہم لوگ ہیں کہ خود پر اس قدر بھروسا ہے کہ چینی کی لائنوں کے علاوہ بھی بازاروں میں ٹہلنے کیلئے نکل رہے ہیں۔ ایک طرف سکولوں پر پابندی لگائی جا رہی ہے اور ادھر چینی کو ناپید کر دیا گیاہے اور رمضان بازاروں میں ہجوم امڈ آیا ہے۔