انتخابی تاریخ اور اصلاحات کی ضرورت۔۔۔۔

بدقسمتی سے پاکستان کی انتخابی تاریخ کچھ زیادہ قابل رشک نہیں، کہا جاتا ہے کہ پاکستان میں آخری ہونے والے 1970 کے انتخابات غیر جانبدار اور شفاف تھے، لیکن یہ آدھا سچ ہے، پورا سچ یہ ہے کہ مشرقی پاکستان میں عوامی لیگ کے بپھرے حامیوں نے خوف کا ایسا ماحول بنا دیا تھا کہ کسی دوسری پارٹی یا امیدوار کیلئے انتخابی مہم چلانا بھی ناممکن ہو گیا تھا، عوامی لیگ کے خلاف ہونا غداری جیسا جرم تھا، ان حالات میں آزادانہ پولنگ ممکن ہی نہیں رہی تھی۔ مغربی پاکستان میں بھیمقامی سطح پر بااثر افراد نے دھاندلی بھی کی، جعلی ووٹ ڈالے گئے، البتہ ان انتخابات میں سرکاری سطح پر کوئی مداخلت نہیں کی گئی، لیکن شفاف الیکشن کیلئے یہ بھی ضروری ہے کہ ووٹر کو آزادانہ ووٹ استعمال کرنے کا تحفظ حاصل ہو، جو 1970 میں نہیں ہو سکا۔ اس کے بعد 1977 کے انتخابات کی کہانی تو سب کو پتہ ہے، اگرچہ بھٹو مرحوم نے اپنے دور میں اپوزیشن اور میڈیا کو دبائے رکھا، عام استعمال کی اشیاء پر کنٹرول کر کے اپنی پارٹی ورکروں کو راشن ڈپو بنا دیئے، چینی اور گھی جیسی چیزیں بھی مارکیٹ میں نہیں ملتی تھیں، عوام مہنگائی سے پریشان تھے مگر بھٹو کی ذاتی کشش اور ایٹمی پروگرام جیسے اقدامات کے باعث ان کی مقبولیت برقرار تھی، اگر وہ الیکشن میں ہار بھی جاتے تو مضبوط اپوزیشن کا کردار ادا کرکے ملک اور جمہوریت کو بچا سکتے تھے، لیکن 1977 کے انتخابات میں منظم دھاندلی کی کوکھ سے نکلنے والی احتجاجی تحریک نے ملک اور جمہوریت کو پٹری سے اتار دیا۔ اگلے 11 سال میں بلدیاتی انتخابات کے علاوہ غیر جماعتی بنیاد پر عام انتخابات ہوئے اور ایک صدارتی ریفرنڈم ہوا، 1987 میں جنرل ضیاء الحق کی ایک فضائی حادثے میں موت کے بعد، 1988 میں جماعتی سیاست بحال ہوئی، لیکن بھٹو کی پیپلز پارٹی اور اس کی مخالف قوتوں کے درمیان سیاسی جنگ، نظریاتی اختلاف سے زیادہ، ذاتی دشمنی کی جنگ بنی رہی۔ 1988 سے لے کر 1999 تک کا عرصہ، ایوان اقتدار میں ”میوزیکل چیئر“ کا کھیل بنا رہا۔ اس دوران ہونے والے انتخابات اور ان کے نتیجے میں بننے والی حکومتیں کسی طور پر بھی جمہوریت کے معیار پر پورا نہیں اترتیں۔ اختیارات کی جنگ نے ایوان صدر اور وزیراعظم ہاؤس کے درمیان اعتماد کے فقدان کی دیوار بنائی رکھی، اگرچہ 1997 میں سیاسی جماعتوں نے مل کر اختیارات ایوان صدر سے واپس لے لئے، لیکن اختیارات کے ہی غیر دانشمندانہ استعمال کی وجہ سے 1999 کے آخر میں حکومت برطرف کی گئی۔۔ جنرل پرویز مشرف کے دور پر کئی طرح کے الزامات لگائے جا سکتے ہیں ساتھ ہی انہوں نے 17ویں آئینی ترمیم کے ذریعے انتخابی اصلاحات بھی کیں، پارلیمنٹ میں خواتین کا کوٹہ بڑھایا، سیاسی پارٹیوں میں داخلی انتخابات کو ضروری قرار دیا، ارکان پارلیمنٹ کیلئے تعلیم کی شرط رکھی اور تیسری بار وزیر اعظم بننے پر پابندی لگائی، اگر ان اصلاحات پر عمل کیا جاتا تو سیاسی پارٹیوں پر خاندانی اجارہ داری کا خاتمہ ہوجاتا اور جمہوری عمل مضبوط ہوتا تاہم ایسا نہ ہوسکا۔کچھ آئینی ترامیم کے بعد اب چیف الیکشن کمشنر اور چیئرمین نیب جیسے آئینی عہدوں کیلئے وزیراعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان مشاورت ضروری قرار دی گئی، جس کے نتیجے میں کیسے اور کون کون آتا رہا، سب کو معلوم ہے۔ اس دوران 2013 اور 2018 کے انتخابات پر دھاندلی اور مداخلت کے الزامات لگے اور احتجاجی تحریکیں بھی چلیں، اب ضمنی الیکشن کے نتائج بھی کوئی تسلیم کرنے کو تیار نہیں اور باہمی عدم اعتماد کا یہ عالم ہے کہ اپوزیشن، وزیراعظم سے بات کرنا تو دور کی بات، نام تک سننے کو تیار نہیں، وزیراعظم مفاہمت کی بات کرتے ہیں مگر عملی پیش رفت نظر نہیں آرہی اور اب تو کراچی کے الیکشن کے بعد اپوزیشن آپس میں بھی ناراض ہے، ایسے ماحول میں عوام تو ویسے ہی انتخابی عمل سے لاتعلق ہو رہے ہیں، اس رجحان کا کسی کو احساس ہی نہیں۔ اس وقت اپوزیشن اس انتظار میں ہے کہ آئندہ سال چیئرمین نیب ریٹائر ہوں اور پھر نئے چیئرمین کی تقرری پر رکاوٹ ڈال کر مقدمات کو غیرموثر کریں، ان کو یہ بھی یقین ہے کہ روایتی انتخابی طریقہ کار ہی پوزیشن کو مواقف ہے، شفاف اور الیکٹرانک مشینوں کے ذریعے انتخابات شاید کسی کو پسند نہیں۔ اگر یہی سب ہونا ہے تو پھر جمہوریت اور عوام کا اس سے کیا تعلق رہ جاتا ہے، اب بھی وقت ہے کہ سیاستدان ملک اور جمہوریت کیلئے اپنی ذات کے دائرے سے نکل کر، قومی سوچ کو اپنائیں، ورنہ سب کا نقصان ہی ہوگا۔