یورپی یونین کے مطالبات، پس چہ باید کرد؟۔۔۔۔

یورپی یونین کی پارلیمنٹ نے متفقہ طور پر پاکستان کے خلاف قرارداد منظور کی ہے، قرارداد پر عمل نہ کرنے کی صورت میں پاکستان کو جی ایس پی پلس سے نکال دیا جائے گا۔ اگرچہ یہ قرارداد اب پیشہوئی ہے، مگر نہ تو مغرب کے مطالبات نئے ہیں اور نہ ہی یہ دھمکی پہلی بار دی گئی ہے۔ جہاں تک مغربی اقدار کا تعلق ہے تو وہ انسانیت کی اقدار کے بھی منافی ہیں، جہاں تک آزادی رائے کا تعلق ہے تو یہ بھی ان کی منافقت اور دوغلہ پن ہے، ہولوکاسٹ کے جھوٹ کو افشا کرنے کو جرم قرار دینے والا یورپ کسی دوسرے کو امتیازی قوانین کا طعنہ دے ہی نہیں سکتا۔ ویسے بھی جس طرح امریکہ نے عراق سے اپنی فوجیوں کی لاشوں کی خبریں اور تصاویر شائع کرنے پر پابندی لگائی تھی، اسی طرح یورپ بھی اپنے مطلب کیلئے ابلاغ پر پابندی لگا دیتا ہے، لیکن مسلمانوں کی دل آزاری کو وہ اپنے اظہار کی آزادی قرار دیتا ہے۔ مغرب کا رویہ اپنی جگہ لیکن ہمارے لیے بھی سوچنے کا کچھ موقع ہے، یہ بات وزیراعظم چند دن پہلے فرانس کے سفیر کو نکالنے کے مطالبے پر کہہ چکے ہیں کہ فرانس کو ناراض کرنا، یورپ کو ناراض کرنے کے مترادف ہے اور ہمیں اس سے نقصان ہوگا، اب ایسے لگتا ہے کہ فرانس کے صدر کے خلاف ہمارے عوامی جذبات اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے کچھ ارکان کی طرف سے فرانسیسی سفیر کو نکالنے کے پلے کارڈ اٹھا کر مطالبہ کرنے کا ہی جواب، یورپی یونین کے پلیٹ فارم سے دیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ یورپ سے تجارت متاثر ہونے سے معیشت پر اثر پڑیگا۔ یہ الگ بات ہے جتنے ہمارے ملک پر قرضے ہیں، اس سے زیادہ دولت پاکستانیوں کی باہر کے بنکوں میں ہے، لیکن فیصلے سیاسی قیادت نے کرنا ہوتے ہیں اور رموز مملکت میں جذبات کا دخل نہیں ہوتا اور یہ ایک عالمگیر سچائی ہے کہ فیصلے صرف طاقتور اور معاشی طور پر مستحکم اقوام ہی کرتی ہیں۔ پاکستان کے لیے بھی دنیا کے آگے اپنے نظریے روایات کے ساتھ کھڑا ہونا اسی وقت ممکن ہوسکتا ہے، جب ہم کسی کے آگے ہاتھ پھیلانے پر مجبور نہ ہوں، جب صورت حال ایسی ہو تو پھر ٹھنڈے دماغ سے سوچنے اور فیصلے کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ وزیراعظم نے حساس صورت حال کے پیش نظر فوری طور پر ایک مشاورتی اجلاس بلایا، جس سے یورپی یونین کے ساتھ ہونے والے معاہدوں اور ان پر عملدرآمد کی رپورٹ دیکھی گئی اور یہ بات سامنے آئی کہ یورپی یونین کے ساتھ، انسانی آزادی کے حقوق، جبری گمشدگیوں کے خاتمے، اقلیتوں اور خواتین کے حقوق کے تحفظ سمیت 8 معاہدے ہوئے تھے،، اس کے بعد وزیراعظم نے اسلامی کانفرنس تنظیم (او آئی سی) کے ممالک کے سفیروں سے بھی ملاقات کی، جس میں دنیا میں اسلاموفوبیا کے بڑھتے رویوں کا اجتماعی سطح  پر مقابلہ کرنے اور مشترکہ موقف اپنانے کی ضرورت پر زور دیا گیا۔ وزیراعظم نے واضح اعلان کیا کہ ختم نبوت پر کسی قسم کا سمجھوتہ نہیں کیا جائے گا، جب کہ دیگر معاملات پر پارلیمانی کمیٹی کے ذریعے غور کے بعد ضروری قانون سازی کی جائے گی، وزیر اعظم اس سے پہلے بھی اسلامی ممالک کے سربراہان کو خط لکھ چکے ہیں، جس میں دنیا میں اسلاموفوبیا کے تدارک اور اسلام اور مسلمانوں سے امتیازی سلوک پر اجتماعی کوششوں کی ضرورت پر زور دیا گیا تھا، لیکن شاید باقی اسلامی ممالک میں عوامی سطح پر اتنا جذباتی ماحول نہیں اور حکومتوں کو مغرب کے شرائط پر عمل کرنے میں مشکل بھی نہیں، ان ہی کی وجہ سے اب یورپ پاکستان پر خاص دباؤ ڈال رہا ہے۔ اس حوالے سے حکومت جو بھی اقدام اٹھائے حزب اختلاف اور دیگر سیاسی جماعتوں کو بھی معاملے کی اہمیت کے پیش نظر اس کی حمایت کرنی چاہئے۔