دیہاتی اور شہری زندگی میں جو ایک فرق تھا وہ تقریباً مٹتا ہی جارہا ہے۔دیہاتی زندگی میں دن بھر کی مشقت جس میں کھیتوں میں کام کاج، مال مویشیوں کیلئے چارے وغیرہ کا بندوبست کرنا اور دیگر ایسے ہی مشقت والے کام کرنا شامل تھا اور جب یہ کام سرانجام دے کر رات ہوتی تھی تو یہ تھکا دینے والے کام انسان کو صرف بستر پر پہنچے کی فرصت دیتے تھے اور اس کے بعد نیند صبح کا ہی پیغام لاتی تھی اور انسان صبح سویرے اٹھ کر ایک دفعہ پھر سے اُن کاموں میں جت جاتا تھا جو روز کا معمول ہوتے تھے۔ مگر آج کی اس مصروف زندگی نے انسانی معمولات میں اس طرح سے فرق ڈالا ہے کہ اس میں نیند کا حصہ بہت ہی کم ہو گیا ہے اور اس کمی نے انسانی صحت پر بھی بہت برا اثر ڈالا ہے۔نیند پوری نہ ہونا بھی ایک بیماری بن چکا ہے‘ جسمانی کاموں میں بھی کافی کمی آ گئی ہے اور اب انسانی زندگی میں جسم کو تھکا دینے والے کاموں کا دورانیہ بھی بہت کم ہو گیا ہے۔ مشینوں کا اس میں بہت بڑا حصہ ہے۔ پہلے ایک دیہاتی صبح سویرے اٹھتا‘ ہل اور بیل لے کو کھیتوں میں چلا جاتا اور دوپہر تک زمین کی راہی باہی کا کام کرتا اور اس کے بعد تھوڑا آرام کر کے مویشیوں کے چارے وغیرہ کے کام میں لگ جاتا او رشام تک کاموں سے جو فراغت ملتی تو اس کے بعدصرف چار پائی پر لیٹنے کی دیر ہوتی اور پھر صبح کو ہی آنکھ کھلتی اور اس وقت تک جسم پوری طرح آرام پالیتا اور دوسرے دن کی کاموں کیلئے تیا ر ہوجاتا۔ اب کے جو معمولات بدلے ہیں تودن بھر آرام ہی آرام ہے اس لئے کہ اب مشینیں وہ کام جو ایک کسان دن بھر محنت کر کے کرتا تھا وہ اسے ایک گھنٹے میں کر کے دے دیتی ہے اور اس میں اُسے کوئی جسمانی مشقت بھی نہیں کرنی پڑتی اور جب جسم کو آرام ہی مل رہا ہو تو رات کی نیند اس کے قریب بھی نہیں آتی۔یہیں سے انسان کی ذہنی پریشانی کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ رات، جو دن کی تھکاوٹ کو دور کرنے کا ذریعہ ہوتی ہے وہ تھکاوٹ نہ ہونے کی وجہ سے انسان کے قریب نہیں آتی اور رات ایسا وقت ہوتا ہے کہ انسان اپنے خیالات کو کسی سے شیئر بھی نہیں کر سکتا اس لئے اس کو اپنے آپ سے ہی لڑنا پڑتا ہے جس سے ایک تو نیند ساتھ چھوڑدیتی ہے اور خیالات کو اپنے آپ سے شئیر کرنے سے مزید ذ ہنی پریشانی بڑھتی ہے اور جس سے نیند میں مزید کمی آ جاتی ہے۔ نیند کی کمی انسانی صحت پر اثر انداز ہوتی ہے اور جسم کئی بیماریوں میں پھنس جاتا ہے۔ یہی ہماری اس زندگی کا المیہ ہے کہ ہمیں جسم کو دن بھر تھکانے کا موقع نہیں ملتا اس لئے رات کو نیند نہیں آتی اور نیند نہ آنا ذہنی پریشانی کا سبب بنتا ہے جس سے انسانی جسم میں کمزوری پیدا ہو جاتی ہے اور پھر یہ کمزور جسم بیماریوں کا مقابلہ نہیں کر پاتا اور زندگی ایک طرح سے جہنم بن جاتی ہے۔ انسان کو جہاں آرام کی ضرورت ہوتی ہے اس کے ساتھ اس کو آرم کی وجہ بھی بنانا پڑتی ہے اور وہ صرف جسمانی محنت سے ہی ممکن ہوتی ہے جب آپ کو کوئی جسمانی کام نہیں کرنا پڑتا تو پھر آپ طبعی طور پر نیند بھی نہیں لے سکتے اور اس کیلئے آپ کو غیر طبعی طریقے اپنانے پڑتے ہیں اور ان غیر طبعی طریقوں سے آپ کے جسم پر طرح طرح کی بیماریوں کے حملے شروع ہو جاتے ہیں۔ جس کیلئے پھر آپ کو ڈاکٹروں کی ضرورت پڑجاتی ہے۔ اور یہ سلسہ آپ کی دائمی فرسٹریشن کا سبب بنتا ہے۔ بات صرف اتنی سی ہوتی ہے کہ آپ کے جسم کو جتنا آرام کی ضرورت ہوتی ہے اتنی ہی اس کو آرام کیلئے تیار کرنے کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔ یعنی جسم کو ایسے کاموں میں لگانا پڑتا ہے کہ جس سے اس کو بہت زیادہ تھکاوٹ کا سامنا کرنا پڑے۔ جتنا جسم تھکاوٹ پائے گا اتنا ہی اسے گہری نیند لینا ہو گا۔ اور اس فطرتی عمل میں آ کے جسم کو کسی بھی بیماری کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا اور آپ ایک خوبصورت زندگی گزارنے کی پوزیشن میں ہوں گے۔ آپ کوجتنا کھانے کی ضرورت ہے اس کے لئے اتنی بھوک کی بھی ضرورت ہوتی ہے۔اگر آپ کو بھوک نہیں ہے اور ٓاپ کھانا بغیر بھوک کے کھاتے ہیں تو وہ آپ کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچاتا ہے۔ اسی طرح اگر آپ بغیر تھکاوٹ کے آرام لینا چاہتے ہیں تو وہ آپ کو فائدے کی بجائے نقصان پہنچائے گا۔ اور اس آرام کیلئے آپ کو غیر فطری طریقے ڈھونڈنے پڑئیں گے یعنی آپ کو نیند کی گولیاں وغیرہ کھانی ہوں گی جو آپ کے بے شماربیماریوں کا سبب بنیں گی۔