اس میں کوئی شک نہیں کہ سمندر پار پاکستانی نہ صرف وطن کا قیمتی اثاثہ ہیں، بلکہ ان کی وجہ سے ہی ملکی معیشت کا کسی قدر بھرم قائم ہے‘ کورونا کی وجہ سے دنیا میں معاشی بحران آیا ہوا ہے، لیکن اس کے باوجود پاکستانی شہریوں نے بیرون ملک سے کثیر زرمبادلہ بھیج کر محفوظ ذخائر کو 23 ارب ڈالر کی سطح تک پہنچایا ہے اس کے ساتھ ہی یہ بھی حقیقت ہے کہ وطن کے ان ہونہار اور کماؤ بیٹوں کے ساتھ، ہماری سرکاری مشینری اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کا رویہ ہمیشہ سوتیلے بیٹوں جیسا ہی رہا ہے۔ وطن واپسی پر ایئرپورٹ پر پیش آنے والی مشکلات ایک مستقل درد سر ہے۔ اس سے بڑھ کر بڑا ظلم یہ ہوتا ہے کہ اپنی بچتوں سے اگر وہ کوئی جائیداد خریدتے ہیں تو پاکستان میں قبضہ گروپوں کی روایتی ٹرائیکا اس پر قبضہ کر لیتی ہے۔ یہ مقامی کن ٹٹے، محکمہ مال اور پولیس کا گٹھ جوڑ ہوتا ہے، اس وجہ سے بیچارے سمندر پار پاکستانیوں کی کسی جگہ شنوائی نہیں ہوتی۔ اس بات کا اعتراف خود وزیراعظم عمران خان بھی کرچکے ہیں اور گورنر پنجاب چوہدری محمد سرور کی مسلم لیگ ن کے ساتھ اختلاف کی وجہ بھی یہی بنی تھی، وہ لیگی حکومت میں بطور گورنر اس کوشش میں تھے کہ بیرون ملک رہنے والے پاکستانیوں کی جائیدادوں کو بااثر قبضہ گروپوں سے واگزار کرائیں۔ اس وقت کے وزیر اعلیٰ نے گورنر کو اس مداخلت سے روک دیا، اس کے بعد گورنر نے استعفیٰ دے دیا تھا۔ آج بھی اس صورتحال میں تبدیلی نہیں آئی ہے۔ مختلف مقامات پر سرکاری اراضی پر قبضہ ختم کرانے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں، لیکن نجی املاک کو واگزار کرانے میں حکومت بھی بے بس ہے۔ اس کے علاوہ سمندر پار پاکستانیوں کا ایک بڑا مطالبہ ووٹ کا حق اور پارلیمنٹ میں نمائندگی بھی رہا ہے اور سچی بات یہ ہے کہ سیاسی حکومتوں کی طرف سے جھوٹے وعدوں اور سیاسی پارٹیوں کے سمندر پار پاکستانی ونگز بناکر مخلص سیاسی ورکروں کا سیاسی اور مالی استحصال کیا جاتا رہا۔ یہ پارٹی عہدیدار نہ صرف پارٹی لیڈر شپ کے بیرون ممالک دوروں کے خرچے اٹھاتے بلکہ بھاری چندہ بھی بھیجتے رہے۔ شاید پاکستان ہی ایسا ملک ہے، جہاں سیاسی پارٹیوں کی بیرون ملک بھی تنظیمیں موجود ہیں اور یہ صرف ان کو پارلیمانی نمائندگی کے لالچ میں اس مشق پر راغب کیا جاتا رہا ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کی حکومت نے پہلی بار اس جانب توجہ دی اور انتخابی اصلاحات میں دوہری شہریت کے حامل شہریوں کو الیکشن لڑنے کیلئے کاغذات جمع کروانے سے پہلے، دوسرے ملک کی شہریت ترک کرنے کی شرط میں نرمی کی ہے، اب امیدوار کامیابی کے بعد، دوسرے ملک کی شہریت چھوڑنے کا پابند ہے۔ مارچ میں ہونے والے سینٹ الیکشن میں اس پر عمل کیا گیا اور اب کوئی دوہری شہریت والا، بغیر شہریت چھوڑے الیکشن لڑ سکتا ہے، البتہ متعلقہ رکنیت کا حلف اٹھانے سے پہلے دوسری شہریت ترک کرنا ہوگی۔ اب حکومت جو نئی انتخابی اصلاحات لا رہی ہے، اس میں سمندر پار پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دینے کا بھی ذکر ہے، اگر یہ قانون بن جاتا ہے تو پہلی بار بیرون ملک رہنے والے پاکستانی بھی ووٹ پول کر سکیں گے، اس عمل میں اگر سیاسی عمل کی وسعت اور خیر کا پہلو ہے، تو یہ نئے تنازعات کا موضوع بھی بن گیا ہے،کیونکہ بیرون ملک سفارتخانے ہی اس عمل کی نگرانی کریں گے، جس کی وجہ سے شکوک پیدا ہونا فطری بات ہے۔ اس وقت تقریبا 80 لاکھ پاکستانی دوسرے ممالک میں رہتے ہیں، یہ ایک بہت بڑی تعداد ہے، اور اگر ان میں سے آدھے ووٹ بھی پول ہوجائیں تو پاکستان میں انتخابی نتائج بدل سکتے ہیں وزیراعظم نے گزشتہ روز پاکستانی سفیروں سے خطاب کرتے ہوئے بھی سمندرپار پاکستانیوں کی اہمیت اجاگر کی اور سفارت خانوں کو حسن سلوک کی تلقین کی ہے، اگرچہ پاکستان کے اندر انتظامی بیوروکریسی کی طرح، فارن سروس کے افسران بھی اس طرح کی دھمکیوں کو خاطر میں نہیں لاتے، اسی طرح سفارتخانوں کا رویہ بھی بدل نہیں سکتا، لیکن حکومت کا مقصد صرف سمندر پار پاکستانیوں کی ہمدردیاں سمیٹنا ہے۔ یہاں دیکھنے کی بات یہ بھی ہے کہ ووٹ کا حق ملنے سے سمندر پار پاکستانیوں کا کون سا مسئلہ حل ہوجائے گا، جبکہ ان کو نمائندگی ملنے کی اب بھی کوئی تجویز نہیں ہے۔