پاکستان میں خارجی اور داخلی حوالوں سے بڑی تیز رفتار پیش رفت ہو رہی ہے، جس سے سیاسی اور سفارتی محاذ پر مثبت تبدیلیوں کے آثار نظر آنے لگے ہیں، اگر سفارتی حوالے سے دیکھیں تو ایک طویل سرد مہری کے بعد پاکستان اور سعودی عرب کے تعلقات میں گرم جوشی دیکھنے کو ملی ہے، وزیراعظم عمران خان ایک اعلیٰ سطحی وفد کے ساتھ سعودی عرب گئے ہیں، جبکہ چیف آف آرمی سٹاف جنرل قمر جاوید باجوہ چند دن پہلے سے وہاں موجود ہیں اور اہم عسکری اور حکومتی شخصیات سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔ سعودی عرب کے ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان اس وقت مملکت کی سب سے بااثر شخصیت ہیں اور انہوں نے امور مملکت میں اہم فیصلے کرکے اپنی صلاحیتوں اور دنیا کے ساتھ چلتے ہوئے ترقی پسند سوچ کو اُجاگر کیا ہے۔ اب سعودی عرب کی طرف سے ایران کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کی خواہش اور چینی کوششوں سے عراق میں دونوں ممالک کے درمیان مذاکرات کے بعد اس بات کا امکان پیدا ہو گیا ہے خلیج میں کشیدگی بھی کم ہو جائیگی، اگرچہ طویل مدت کی غلط فہمیوں کو ختم کرنے میں کچھ وقت لگے گا، لیکن دونوں طرف سے اس سوچ کو قبول کرلیا گیا ہے کہ خلیج میں کشیدگی سے مسلم اُمہ کو نقصان پہنچ رہا ہے، جب کہ مسلمانوں کی دشمن طاقتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں۔ پاکستان شروع سے ہی ایران اور سعودیہ کے درمیان مصالحت کیلئے ثالثی کا خواہشمند رہا ہے، لیکن یہ موقع چین اور عراق کو مل گیا، اس کے باوجود پاکستان نے اس پیشرفت کا کھلے دل سے خیر مقدم کیا ہے۔ جہاں تک پاکستان اور سعودی عرب کے درمیان برادرانہ مراسم میں اتار چڑھاؤ کا تعلق ہے، تو اس میں ایک دوسرے سے توقعات میں عدم توازن اہم نقطہ ہے، پاکستان توقع رکھتا ہے کہ برادر ملک ہماری معاشی بحالی میں مدد کرے اور کشمیر کے معاملے پر کھل کر ہمارا ساتھ دے، جبکہ سعودی یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان ہماری مالی امداد کے جواب میں، ہماری ہر بات کو غیر مشروط قبول کرے لیکن پاکستان نے صرف سعودی عرب کی سلامتی اور دفاع میں مدد کا وعدہ کر رکھا ہے۔ پاکستان کو اس وقت معاشی مشکلات کا سامنا ہے، سعودی عرب ان سے نکالنے میں ہماری مدد کر سکتا ہے، اس کے جواب میں پاکستان جو کچھ کرسکتا ہے،۔حالیہ دوروں کے دوران بظاہر دونوں ممالک کے درمیان 5 معاہدوں اور تین مفاہمتی یاداشتوں پر دستخط ہوئے ہیں. ان میں سعودی پاکستان سپریم رابطہ کونسل کے قیام، ماحولیات اور موسمیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کیلئے تعاون، سزا یافتہ مجرموں کے تبادلے اور جرائم کے خلاف تعاون اور توانائی منصوبوں سے متعلق معاہدہ شامل ہیں. اس کے علاوہ منشیات کی سمگلنگ روکنے، میڈیا تعاون بڑھانے اور افرادی قوت کی ترسیل کے حوالے سے یاداشتوں پر دستخط بھی ہوئے ہیں۔ امید کی جارہی ہے کہ اس دورے سے سعودی عرب میں کام کرنے والے پاکستانی ورکروں کی مشکلات کم ہونگی اور ہزاروں قیدیوں کی رہائی بھی ممکن ہوگی۔ جہاں تک داخلی حوالے سے پیش رفت کا تعلق ہے تو پی ڈی ایم سے پیپلز پارٹی اور اے این پی کی علیٰحدگی کے بعد، اب مسلم لیگ ن میں بھی، پارٹی صدر شہباز شریف کی ضمانت پر رہائی کے بعد، مفاہمت پسند سوچ غالب آ گئی ہے۔ مختلف ضمنی انتخابات میں حکومتی امیدواروں کی شکست اور مسلم لیگ ن کی جیت سے شہباز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ بدلتی ہوئی سیاسی صورتحال کو جذباتی جوش کے بجائے تحمل اور بردباری سے سنبھالا جائے اور تشدد کی بجائے مفاہمت کی سیاست سے مسلم لیگ ن کیلئے امکانات کو بڑھایا جائے۔ ان کی ضمانت کے بعد لندن جانے کی اجازت کی وجہ بظاہر طبی معائنہ ہے‘اگرچہ بلیک لسٹ میں نام درج ہونے کے باعث فی الحال وہ لندن روانہ نہیں ہو سکے تاہم مستقبل میں کیا ہوتا ہے یہ آنیوالا وقت ہی بتائے گامسلم لیگ میں اگرچہ مریم نواز کی صورت میں ایک ولولہ انگیز قیادت سامنے آئی ہے، لیکن اب بھی پارلیمانی پارٹی کی اکثریت شہباز شریف کے طرز سیاست کی حامی ہے۔شہباز شریف گزشتہ دنوں اسلام آباد آئے انہوں نے چین اور برطانیہ کے سفیروں سے بھی ملاقات کی۔ دیگر نجی اور سیاسی ملاقاتیں بھی کیں، لیکن پی ڈی ایم کے صدر مولانا فضل الرحمان سے ملاقات نہیں کی اور نہ ہی ان کی بیمار پرسی کی۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عید کے بعد پی ٹی ایم کے اجلاسوں اور احتجاجی پروگرام میں مسلم لیگ ن پرجوش نہیں رہے گی۔ سیاسی حلقوں کا خیال ہے کہ ملک میں وسط المدتی انتخابات کا ماحول بن رہا ہے۔ اس سلسلے میں سب سے بڑا جواز، حکومت اور اپوزیشن میں مکمل بائیکاٹ اور پارلیمنٹ میں آئین سازی نہ ہونا ہی کافی ہے۔