اب تو خیر مل بیٹھنے کی فرصتیں خواب و خیال ہو گئیں ہیں لیکن کچھ عرصہ پہلے جب شہروں اور قصبوں میں ایک گہما گہمی کی سی کیفیت تھی ان دنوں کی مصروفیات کچھ میکانکی انداز میں ڈھل چکی تھیں، کار جہاں نے ہر شخص کو ایک طرح سے نفسیاتی مریض بنا دیا تھا، زندگی کرنے اور سہولت سے زندگی کرنے کے اسباب سے مارکیٹیں بھر گئیں تھیں اور ان کا اشیا ء کا حصول ہر گھر کا اولین مقصد ِ حیات بن گیا تھا، اور ظاہر ہے کہ یہ مفت تو نہیں ملتی تھیں اس کے لئے پیسے کی ضرورت تھی، سو پیسہ کے حصول کی ایک ریس شروع ہو گئی اور مصنوعی سہولت کی خاطر یار لوگ خود کو ہلکان کرنے لگے۔جب پیسہ نہیں تھا اور انسانی ضروریات کیلئے اشیا کے بدلے اشیا (بارٹر سسٹم) کا چلن عام تھا تو قدرے سکون تھا مگر پیسہ کیا آیا کہ اپنے ساتھ بے سکونی کے بہت سے بکھیڑے لے آیا۔ زندگی آگے بڑھتی ہے اور اسے آگے بڑھتے رہنا چاہئے پشتو روزمرہ کے مطابق ”گاؤں بے شک چھوڑ دیں مگر گاؤں کے آداب اور اقدار سے پیچھا نہ چھڑائیں“ اچھی اقدار اچھی تربیت کی دین ہوا کرتی ہیں اور زندگی کتنی بھی تلخ ہو جائے تربیت کی مٹھاس اسے متوازن بنا دیتی ہے، یادش بخیر چند برس پہلے مجھے ایک فون آیا، بہت ہی میٹھی آواز میں میرا نام لے کر پوچھا کہ آپ ہیں،میں نے کہا جی اور آپ کون؟ کہنے لگی میں بی بی سی لندن سے بول رہی ہوں آپ کے ایک دوست آپ سے بات کرنا چاہتے ہیں،اور تب ایک بھولے بسرے دوست عمر آفریدی سے بات ہوئی۔ عمر آفریدی سے کوئی آٹھ، دس برس پہلے پشاور میں پہلی ملاقات ہوئی تھی وہ فطرت کے تحفظ کے عالمی ادارے (آئی یو سی این)میں کراچی سے ٹرانسفر ہو کر آئے تھے،کراچی میں اسی ادارے کے میگزین کے ایڈیٹر تھے اور اس میگزین میں میرا بھی ایک آدھ آرٹیکل شائع ہوا تھا لیکن ہماری ملاقات در اصل اسی ادارے سے وابستہ دوست فیاض احمد خان کی وساطت سے ہوئی تھی جس کی جگہ وہ پشاور مرکز آئے تھے،میں نے اس ادارے کیلئے ایک سٹیج ڈرامہ ”پہلی بارش“ لکھا تھااور ہدایات بھی تھیں، وہ بہت پسند کیا گیا تھا، عمر آفریدی اسی سلسلے کے اور سٹیج ڈرامے لکھوانا چاہتے تھے،اس لئے کم و بیش روزانہ ملاقاتیں رہیں،پھر میں نے آئی یو سی این کیلئے دوسرا سٹیج ڈرامہ ”کس کو کہہ رہے ہو“ لکھا۔ اردو ڈرامہ کیلئے پہلی بار میں نے پشتو ڈراموں کے مقبول فنکاروں سید رحمن شینو،عالزیب مجاہد اور خالدہ یاسمین کو بھی کاسٹ کیا،معروف فنکار قاضی محمد خامس اور ناول نگار سہیل انجم کو بھی ساتھ رکھا تھا۔ کئی دن تک مسلسل ریہرسل چلتی رہی، یہ 90 کی دہائی کا آخری سال تھا اورہم نے فنکاروں کو بہت دل خوش کن معاوضہ دیا تھا۔، ان دنوں ریڈیو پر روزانہ میرا تین گھنٹے کا لائیو شو ”میوزک چینل ہنڈرد“ بھی چل رہا تھا،پانچ بجے سہ پہر ختم ہونے والے اس شو کے بعد مجھے ڈیفنس کے ایک بنگلے میں ریہرسل کیلئے جانا ہوتا،یہ روز و شب بہت دلکش اور مصروف تھے،ایک دن میں نے عمر آفریدی کوکہا کہ وہ بھی میرے ساتھ ریڈیو کے اس شو میں شریک ہو اور اپنے قدرتی تحفظ کے حوالے سے بات کرے،اس نے کہا یہ کام میرے بس کا نہیں ہے،مائیک سے میری کوئی علیک سلیک نہیں ہے، مگر میں مصر رہا اور اسے کہا بات میں کروں گا آپ کا ذہن بن جائے تو بات کر لیں، اس دن ڈرے ڈرے اور لجائے لجائے عمر آفریدی نے مختصر سی گفتگو کی تھی، لیکن بہت خوش تھے۔ پھر شب روز گزرتے رہے ڈرامے اور ملاقاتیں ہوتی رہیں کوئی سال بھر بعد عمر آفریدی کو واپس کراچی بلا لیا ہوگا، شاید ایک ہی بار فون پر بات ہوئی مگر پھر ہم دونوں ہی اپنی اپنی مصروفیات کے ہجوم میں ایک دوسرے سے انگلی چھڑا بیٹھے، اب پوری ایک دہائی کے بعد عمر آفریدی کی آواز سنی، اس نے خیر خیریت کے بعد بتایا کہ میں نے بی بی سی جوائن کر لیا ہے اور گزشتہ کئی ماہ کی ٹرینگ کے بعد آج سٹوڈیز میں میرا پہلا دن تھا آپ سے ابھی میری ساتھی نے بات کی تھی اب وہ آپ کو بتائے گی کہ میں نے اسے سٹوڈیوز کے دروازے پر رک کر اسے کیا کہا تھا، تب مجھے اس میٹھی آواز والی آر جے نے بتایا کہ عمر نے کہا تھا کہ شو کے بعد پاکستان ایک دوست سے بات کرنا ہے، کیونکہ پہلی بار کسی بھی ریڈیو سٹیشن کے در و دیوار سے متعارف کرانے سے لے کر مائیک پر بولنے کے آداب سکھانے اور اعتماد دلانے تک سب کچھ ان کی وجہ سے ممکن ہوا تھا۔ اس لئے مجھے انہیں بتاتے ہوئے بہت اچھا لگے گا۔ مجھے بہت حیرانی ہوئی کہ ایک چھوٹی سی بات اور وہ بھی ایک دہائی پرانی بات اور پھر لند ن کے شب و روز کی بے پناہ مصروفیات میں گھرے ہوئے عمر آفریدی کو کیسے یاد رہ گئی،یہ وہی اپنی اچھی اقدار سے وابستگی کا سبق ہے جو اچھی تربیت کی دین تھا۔ حالانکہ زمانے کے اطوار کو کٹھور پن کا شکار ہوئے ایک زمانے ہو چلا ہے بہادر شاہ ظفر نے تو ڈھائی سو برس پہلے ہی کہہ دیا ہے
جتنے تھے شیوے اچھے وہ دنیا سے اٹھ گئے
اور اے ظفر طریق ِ مروّت علی الخصوص
تب سے اب تک تو حالات میں کیا کیا بگاڑ نہیں پیدا ہوا۔ اور ایک ایک کرکے اقدار کے سارے خوشنما پرندے جانے کس طرف کوچ کر گئے، لیکن جب کہیں سے عمر آفریدی کی طرح کوئی محبت بھرا دل نظر آتا ہے تو الطاف حسین حالی کا شعر زبان پر آ ہی جاتا ہے کہ
بہت جی خوش ہوا حالی سے مل کر
ابھی کچھ لوگ باقی ہیں جہاں میں
شاید یہی وجہ ہے کہ جب بھی کوئی شخص کہیں بھی کوئی نیکی کا کام کرتا ہے تو اخبارات اور چینلز کی سرخیوں میں جگہ پاتا ہے، کسی ٹیکسی والے نے کسی کا پیسوں بھرا پرس لوٹا دیا یا پھر کسی بھی اہلکار نے راستے میں پڑا ہوئے زیورات کا بیگ مالک تک پہنچا دیا، اس کے انٹرویوز نشرہو نا شروع ہو جاتے ہیں، نیکی کی تشہیر کا یہ پہلو لاکھ ایک مثبت سرگرمی سہی مگر اس کا سیدھا سیدھا مطلب تو یہی ہے نا کہ باقی کا سارا معاشرہ ایسا نہیں ہے،اچھی اقدار اب خواب و خیال ہوئیں پھر بھی غنیمت ہے کہ کچھ لوگ ابھی تک اپنی اچھی تربیت کی بدولت معاشرے کا توازن قائم رکھے ہو ئے ہیں، لیکن سیانے کہتے ہیں کہ اب اس پیغام کو عام کرنے کی ضرورت ہے،میں نے بھی یہی بات شعر کی زبانی کی ہے۔
بہت نفرت کی فصلیں کاٹ لیں برباد ہو بیٹھے
محبت کا دلوں میں بیج اب بو نا ضروری ہے