کورونا اور عید۔۔۔

ہندوستان میں کورونا نے تباہی مچا دی ہے۔ روزانہ کے حساب سے سینکڑوں  لوگ موت کے منہ میں جا رہے ہیں۔ بات صرف اتنی سی تھی کہ ایک میلے میں جہاں لاکھوں لوگ شرکت کرتے ہیں لوگ اس میلے میں گئے۔ کورونا کو جو ایک جگہ لاکھوں انسانوں کا مجمع نظر آیا تو اس کے تو مزے بن گئے اور اس نے خوب شکار کئے اور صورت حال یہ ہے کہ اب تک لاکھوں انسان اس کا شکار ہو کر اگلے جہاں سدھا رگئے ہیں۔ ہمارے ہاں اس کے حملے جاری ہیں اور یہ بھی حقیقت ہے کہ کورونا کے حملے اس جگہ زیادہ ہو جاتے ہیں کہ جہاں انسانوں کا ہجوم زیادہ ہوتا ہے۔ اگر ایک بھی مریض  ایسے مجمعے میں ہو تو وہ سینکڑوں کو اس موذی مرض میں مبتلا کر دینے کیلئے کافی ہے۔ اس لئے کہتے ہیں کہ کورونا کے مریض کو جمگھٹے میں نہیں جانا چاہئے۔ پھر بھی  یہ وا ئرس ایسی جگہوں کواپنی تاک میں رکھتا ہے کہ جہاں انسانوں کا اکٹھ ہو جائے۔ اب ہمارے ہاں عید الفطرکا دن آ رہاہے۔ظاہر ہے کہ یہ ایک ایسا دن ہے کہ جہاں صبح سویرے لوگ  تیاری کر کے نمازعید کے لئے نکلتے ہیں اور عید کی نماز ادا کرنے کے بعد ہی ایک دوسرے سے سلام کلام ہوتاہے۔ ہمارے دیہات میں تو سارا دن لوگ ایک دوسرے کے گھرجاتے اور عید ملتے ہیں۔ عید کی نماز میں بھی ایک جم غفیر  نماز عید کی ادائیگی کے بعد ایک دوسرے سے گلے ملتا ہے۔ عید ملن میں صرف ہاتھ ملانے پر ہی اکتفا نہیں ہوتا بلکہ اس میں گلے ملنا ضروری ہوتا ہے۔ اب جو اس موذی مرض نے اپنے ڈیرے اس ملک میں ڈال رکھے ہیں تو یہی ایک موقع ہے کہ یہ مرض لوگوں کو اپنی لپیٹ میں لے۔  ہمارے ہاں تو عید کی نماز سے فارغ ہوتے ہی سارے لوگ چاہے وہ ایک دوسرے کو پہچانتے ہوں یا نہ پہچانتے ہوں ایک دوسرے کو گلے لگاتے ہیں اب  جو ہمارے ہاں کورونا نے حملہ کیا ہوا ہے تو اس کیلئے تو ایسے میں اسے بہت ہی آسان ہدف مل رہے ہوں گے اور جس طرح  ہندوستان کے میلے میں اسے آسان ہدف ملے تھے اور ابھی تک ان سے فائدہ اٹھا رہا ہے ہمیں ڈر ہے کہ ہمارے اس خاص دن کا بھی یہی انجام نہ ہو۔ گو اس میں بہت زیادہ احتیاط کی ضرور ت ہے مگر کیا کیا جائے کہ یہ سال میں ایک ہی دن ہوتا ہے کہ جب ہم ایک دسرے سے گلے بھی ملتے ہیں اور سال بھی کی کوتاہیوں کی معافیوں کے بھی طلبگار ہو تے ہیں۔اس دن کو اس  دفعہ کیسے منایا جائے کہ معافیاں بھی مل جائیں او رکورونا کے حملے سے بھی بچ جائیں۔ اگر چہ یہ ایک خاص موقع ہے تاہم احتیاط کے تقاضوں کوملحوظ رکھا جا سکتا ہے۔ ہاتھ ملائیں بھی تو پھر اسے سینٹائز کیا جا سکتا ہے۔ ہاتھوں کو مسلسل دھونے سے وائرس کا پھیلاؤ کم سے کم ہو سکتا ہے۔ اس طرح ماسک کو بھی لازمی طور پہنا جائے تو بھی کافی حد تک کورونا سے بچاؤ ممکن ہے۔مختصریہ ہے خوشی بھی منائیں اور جان کی حفاظت بھی کی جائے۔