مسجد اقصیٰ میں فلسطینی عبادت گزاروں پر اسرائیلی بربریت پر ہر مسلمان کا دل دکھی ہے، صیہونی جابر حکومت کا یہ اقدام، پہلا ہے نہ ہی نیا، 74سال سے فلسطینی اس ظلم کو جھیل رہے ہیں، عام مسلمانوں کو اگر اسرائیلی فوج کی اس کاروائی پر دکھ ہے تو اس سے زیادہ افسوس مسلم ممالک پر ہے جو ابھی تک اظہار افسوس اور مذمت کے رسمی بیانات سے زیادہ کچھ نہیں کرسکے، حال ہی میں متحدہ عرب امارات سمیت چند عرب ممالک نے نہ صرف اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کئے ہیں، بلکہ تجارتی مراسم بھی تیزی سے شروع کر دیئے گئے، اس فیصلے کا ایک جواز یہ بھی بتایا گیا تھا کہ اسرائیل کو فلسطین کی آزادی اور فلسطینیوں پر ظلم و تشدد روکنے پر مجبور کیا جا سکے گا، لیکن افسوس ناک حقیقت یہ ہے کہ ایسا نہیں ہورہا۔چاہئے تو یہ کہ اگر اسرائیل کے ساتھ مراسم کے مثبت نتائج سامنے نہیں آئے اور فلسطینیوں کے حقوق کااس طرح تحفظ نہیں ہوسکا تو پھر ان فیصلوں پر نظر ثانی کی جائے اور تمام مسلم ممالک اس حوالے سے ایک ہی پالیسی اپنائیں۔اس وقت دنیا بھر میں مسلمان زخم خوردہ ہیں۔ یمن میں جاری جنگ ہو یا عراق و شام میں خانہ جنگی، یا پھر افغانستان میں آگ و خون کا کھیل،نقصان مسلمانوں کا ہی ہورہا ہے۔ افغانستان سے امریکی فوج کا انخلا شروع ہے اورایک بار پھر حالات وہی بن رہے ہیں جو 1987 میں سویت یونین کے نکلنے کے بعد تھے، امریکہ بھی شاید جان بوجھ کر کسی منظم سیاسی بندوبست کے بغیر ہی جا رہا ہے اور طالبان سمیت مختلف گروہ اپنی عملداری مستحکم کرنے کی کوشش میں ہیں، صوبائی مراکز پر قبضے کی جنگ کی تو سمجھ آتی ہے، لیکن گزشتہ ہفتے لڑکیوں کے سکول پر کار بم حملہ اور اس میں (تادم تحریر) 70 معصوم طالبات کی موت اور 100 سے زائد زخمی کرنے کا کیا جواز ہے۔ رمضان میں بے گناہ اور معصوم شہریوں کو نشانہ بنایا گیا۔ افغانستان میں امن کی صورتحال دن بدن خراب ہوتی جارہی ہے اس ملک میں سیاسی جماعتیں غیر مؤثر ہیں، جب کی عسکری تنظیمیں اپنا اثر بنانے کیلئے قتل عام کر رہی ہیں، یہ بات واضح ہے کہ افغانستان میں دہشت گردی کے پیچھے وہی لوگ ہیں جو یہاں پر امن قائم ہونے کے حامی نہیں ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہاں پر خونریزی جاری رہے جس کی آڑ میں خطے کے دیگر ممالک میں بھی تحریب کاری آسان ہوجاتی ہے اور اس کھیل میں بھارت زیادہ سرگرم ہے۔جس کے ذریعے وہ پاکستان اور خطے میں عدم استحکام پیدا کرنا چاہتا ہے، حالیہ دنوں میں افغانستان کے اندر سے پاکستانی سرحدی عسکری چوکیوں پر جو حملے ہوئے ہیں اور بلوچستان اور قبائلی پٹی میں فوجی قافلوں اور تنصیبات پر حملے ہوئے ہیں، یہ واضح طور پر بھارت کی طرف سے سپانسر کیے گئے ہیں، ابھی ان میں مزید تیزی آرہی ہے، اگرچہ سرحد پر باڑ لگانے کے بعد کافی حد تک دراندازی کو روک دیا گیا ہے، لیکن بھارتی ایجنٹ افغانستان میں موجود ہیں، جو رمضان میں بھی چھپ کرنہ صرف افغانستان بلکہ پاکستان میں بھی حملے کررہے ہیں۔ دیکھاجائے تو اس وقت ایک طرف اگر اسرائیل دہشت پھیلانے میں مصروف ہے تو دوسری طرف بھارت یہی کھیل کھیل رہا ہے۔ جب تک اسلامی دنیا متفقہ اور مشترکہ طور پر لائحہ عمل بنا کر اس ظلم کے آگے دیوار نہیں بناتے، یہ ظلم ختم نہیں ہو سکتا۔مسلم ممالک اور خاص کر او آئی سی کو اب نئے حالات کی مناسبت سے اپنی واضح پالیسیوں کو سامنے لانا ہوگا تاکہ دنیا بھر میں جہاں جہاں مسلمانوں پر مظالم ڈھائے جار ہے ہیں ان کی دادرسی ہواور یہ تب ہی ہوسکتا ہے جب تمام مسلم ممالک مشترکہ لائحہ عمل تشکیل دیں۔