بھارت سے اس وقت صرف کورونا کی تباہ کاریوں سے متعلق خبریں ہی باہر آ رہی ہیں، ہر ایک کو اس قدرتی وبا سے پناہ کی دعا مانگنی چاہئے، لیکن بھارت نے گزشتہ سال پاکستان میں کورونا کے پھیلاؤ پر جس طرح کے رد عمل کا مظاہرہ کیا تھا، اب اس پر خود بھارتی بھی شرمندگی کا اظہار کر رہے ہیں، جب کہ پاکستان کے عوام اور حکومت کی طرف سے بھارت کو مدد کی پیشکش انسانی ہمدردی کی اعلی مثال ہے، لیکن مشکل حالات کے باوجود بھارت کی مرکزی حکومت نے، پنجاب حکومت کی، پاکستان سے آکسیجن درآمد کرنے کی درخواست قبول کرنے سے انکار کر کے نہ صرف عوام کو موت کے منہ میں دھکیلنے کی کوشش کی، بلکہ پاکستان سے نفرت کی بھی توثیق کر دی گئی۔ لیکن حالیہ دنوں بھارت سے ایک ایسی سنگین واردات کی خبر بھی لیک ہوئی ہے، جس کا تعلق عالمی سلامتی سے ہے، یہ اعلیٰ قسم کا قدرتی یورینیم فروخت کرنے کی کوشش کا انکشاف ہے، خبر کے مطابق ایک بھارتی شہری سے 90 فیصد تک صاف کی ہوئی 7 کلو سے زائد قدرتی یورینیم برآمد ہوئی ہے، جو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا، ایک اندازے کے مطابق اس کی قیمت 22 کروڑ بھارتی روپے ہے (جو پاکستانی 45 کروڑ کے برابر ہے)، اگرچہ بھارتی تفتیشی ادارے نے باقاعدہ ایف آئی آر درج کر لی ہے،اور گرفتار ملزم کی نشاندھی پر ایک اور گرفتاری بھی ہوئی ہے، دوسرا گرفتار شخص مسلمان بتایا جا رہا ہے، جو ایک کباڑیہ ہے، ایک مسلمان بھارتی کی گرفتاری سے، اس بات کے خدشات بڑھ گئے ہیں کہ بھارت اپنی غیر ذمہ داری اور حساس ایٹمی تنصیبات کی سکیورٹی میں ناکامی پر پردہ ڈالنے کیلئے عالمی برادری کو گمراہ کرنے کی کوشش کرے گا۔ پاکستان کی وزارت خارجہ کے ترجمان نے بھارت میں انتہائی حساس ایٹمی مواد کی نجی سطح پر موجودگی اور خرید و فروخت پر تشویش ظاہر کی ہے اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی سے مطالبہ کیا ہے کہ اس بات کا سختی سے نوٹس لیا جائے، پاکستان نے کہا ہے کہ ایٹمی تنصیبات اور مواد کی حفاظت ہر ملک کی ذمہ داری ہے، اس کو کسی طور پر نظر انداز نہیں کیا جاسکتا، بھارت میں انتہا پسند تنظیموں کی موجودگی اور بھارت کی طرف سے دوسرے ممالک میں دہشت گردی کے فروغ کے تناظر میں یہ معاملہ مزید سنگین ہو جاتا ہے، اس لیے عالمی برادری اور ایٹمی توانائی تنظیم کو ازخود تفتیش کرنی چاہئے۔ بھارت ہمیشہ پاکستان پر دیگر الزامات کے ساتھ، یہ الزام لگاتا رہا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی اثاثے غیر محفوظ ہیں اور یہ غیر قانونی تنظیموں کے ہاتھ لگنے کا خطرہ ہے، لیکن پاکستان نے نہ صرف خود کو ایک ایک ذمہ دار ایٹمی ملک ثابت کیا ہے، بلکہ ایٹمی عالمی تنظیم کے قواعد و ضوابط پر عمل کرنے والا ملک بھی ہے،آج تک چوری تو دور کی بات، پاکستان کی کسی ایٹمی لیبارٹری میں کوئی معمولی سا حادثہ بھی نہیں ہوا، جب کہ بار بار ایٹمی دھماکے کر کے ہمسایوں کو دباؤ میں رکھنے کی کوشش کرنے والے بھارت میں، 1990 میں بھوپال کی ایٹمی لیبارٹری میں سنگین حادثہ ہوا تھا، جس سے سینکڑوں شہری ہلاک اور تابکاری سے متاثر ہوئے تھے، اس کے اثرات آج بھی موجود ہیں، اس تناظر میں دیکھا جائے تو بھارتی غیر ذمہ دار اور غیر محتاط ایٹمی ملک ثابت ہو چکا ہے۔ یہ ایک تشویشناک بات ہے اور اگر ہندو انتہا پسندی کو دیکھا جائے تو معاملہ زیادہ گھمبیر ہو جاتا ہے، بھارت کی یہ سوچی سمجھی کوشش ہے کہ کورونا کی ہلاکت خیزی کے تناظر میں، یورینیم برآمدگی کیس دب جائے، لیکن یہ پاکستان کی حکومت اور پاکستانی میڈیا کی ذمہ داری ہے کہ عالمی برادری کو اس جانب متوجہ کرے اور عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی پر زور دیں کہ وہ خود اس بات کی تحقیق کرے۔ یہ بات قابل توجہ ہے کہ جس شخص سے یورینیم برآمد ہوئی، وہ اس کی اہمیت و حیثیت سے آگاہ تھا اور اس کو فروخت کرنے کی کوشش کر رہا تھا، یہ خام حالت میں نہیں، بلکہ 90 فیصد صاف کی ہوئی یورینیم ہے، جو ایٹمی ہتھیاروں میں استعمال ہوسکتی ہے، سات کلو گرام ایک بہت بڑی مقدار ہے، اس سے پہلے کسی ملک میں اتنی شفاف کوالٹی اور اتنی مقدار میں یورینیم کبھی نہیں پکڑی گئی۔ بلکہ یہ بھی ثابت ہوا ہے کہ پاکستان کے ایٹمی مقامات تک کسی غیر متعلقہ فرد کی رسائی ناممکن ہے، عالمی ایٹمی توانائی ایجنسی بھی اس کی تصدیق کر چکی ہے، اس کے برعکس بھارت نہ تو ایٹمی تابکاری کو روک سکا ہے، اور نہ ہی کھلے یورینیم کی خریدوفروخت کا تدارک کرسکا ہے، اس حوالے سے صرف پاکستان ہی نہیں بلکہ عالمی برادری کو تشویش ہونی چاہئے اور اس بات کی مکمل کھوج لگائی جانی چاہئے کہ ایٹمی لیبارٹری سے کس طرح بھاری مقدار میں خطرناک مواد باہر آیا۔ اب بھارت پر اعتماد کرنا عالمی سلامتی کو داؤ پر لگانے کے مترادف ہوگا۔