ماضی اور حال۔۔

رمضان المبارک کے دن عبادت و ریاضت میں گزارنے کے بعد اللہ کریم نے ایک دن ایسا مسلمانوں کیلئے رکھا ہے کہ جس دن  ان کو وہ خوشی ملتی ہے کہ جو ایک مزدور کو سارا دن محنت کے بعد مزدوری ملنے پر ہوتی ہے اور وہ اپنے بچوں کیلئے کچھ سامان  لے کر ان کے چہروں کی  رونق بڑھا کرخوشی محسوس کرتا ہے۔اگرچہ  اس دفعہ عید کورونا وباء کے باعث پھیکی رہی تاہم احتیاط کا دامن چھوڑنا بھی ممکن نہیں تھاماضی اور حال کے عید میں واضح فرق نظرآیا ہے‘بہرحال یہ دن یادگار رہتا ہے‘یہ دن خصوصاً بچوں کیلئے خوشی لاتاہے جو اپنے بڑوں سے عیدی لیتے ہیں اور اس عیدی کو اپنی خواہش کے مطابق خرچ کرتے ہیں۔ سارا سال بچے اگر ماں باپ سے کچھ بھی پیسے لیتے ہیں تو اس کا حساب دینا پڑتا ہے کہ کیسے خرچ کیا۔ کیا کوئی پیسہ فضول تو خرچ نہیں کیا۔ جو کچھ لایا اُس کا کچھ فائدہ اُس کو یا اس کے گھر والوں کو ہوا یا نہیں۔ اگر نہیں ہوا تو اس کا مطلب یہ کہ اس نے  فضول خرچی کی۔ مجال ہے کہ ایک پیسہ بھی اپنی خواہش کے مطابق خرچ کیا جا سکے۔ جو کچھ امی ابونے لانے کیلئے کہا اس سے زیادہ اگر کوئی پیسہ خرچ ہو گیا تو شامت آگئی۔ گو اس میں اپنی خواہش کے مطابق کچھ نہ کچھ مار دھاڑ کر ہی لی جاتی ہے مگر اس کیلئے جتنے بہانے گھڑنے پڑتے ہیں اُس کا بھی جواب نہیں۔مجھ جیسے سیدھے سادے تو اس پر مار ہی کھاتے آئے ہیں۔ مگر دوست یار ایسے میں کام آتے ہیں۔ کہ کھا بھی جاتے ہیں اور  بہانے بھی سکھا دیتے ہیں کہ جان بچ جاتی ہے۔مگر یہ ہوتا بہت ہی کم ہے اس لئے کہ امی ابو بھی تو اس عمر سے گزرے ہوتے ہیں اور ان کو بھی معلوم ہوتاہے کہ بچہ کیا کیاکمال دکھا رہا ہے۔ اس لئے جھوٹ کا پول تو کھل ہی جاتا ہے اور اس کے بعد عموماً چراغوں میں روشنی نہیں رہتی۔ اگر سودا  لانے کا پیسے ملے تو بھاؤ تاؤکا تو بزرگوں کو معلوم ہی ہوتا ہے اس لئے اگر کوئی اپنی پسند کی چیز بچے پیسوں سے خرید کر کھا لی تو اس کو حساب میں ایڈجسٹ کرنے کیلئے بھی اچھی خاصی مغز ماری کرنی پڑتی  ہے۔  بہت دفعہ تو توبہ کرنی پڑتی ہے کہ آئندہ یہ کام امی ابو خود ہی کر لیں۔ یہ حساب کتاب والی بات ہم سے نہ ہی کروائی جائے تو بہتر ہے۔ مگر کیا کیا جائے کہ ہم ہوشیاروں میں داخل ہو گئے ہوتے ہیں اس لئے سود ے کی خریداری ہمارے ہی ذمے لگ جاتی اور اس کا حساب بھی دینا پڑتا۔ ہم نے تو ہمیشہ کہا ہے کہ اگر حساب کتاب لینا ہے تو بہتر ہے خریداری بزرگ خود ہی کر لیں۔ اس لئے کہ ایک تو ہم سودا خریدیں۔ بھاؤ تاؤ  میں مغز ماری کریں اور پھر آکے ابو امی سے بھی جھوٹ کیلئے مغرز ماری کریں۔ اس لئے کہ جب دوست یار ساتھ ہوں تو خریداری میں جھوٹ کا عنصر توشامل کرنا ہی پڑتا ہے ۔ ورنہ وہ کہاں چھوڑنے والے ہوتے ہیں۔ کچھ نہ کچھ آلو چھولے تو کھانے ہی پڑتے ہیں اور یہ آلو چھولے سامانِ خریداری میں ایڈ جسٹ  بھی کرنے پڑتے ہیں اس لئے کہ جو پیسے خریداری کیلئے گھر سے دیئے جاتے ہیں ان میں آلو چھولے شامل نہیں ہوتے۔  یہ تو دوستوں کی دوستی میں شامل ہو جاتے ہیں اسی لئے ان کو حساب میں شامل کرنا پڑتا ۔ وہ ایسے کہ جوچیز دس روپے کی خریدنی ہے اس میں آٹھ آنے تو بچانے ہی پڑتے ہیں چاہے وہ دکاندار سے بھاؤتاؤ میں مل جائیں یا  اس کیلئے کوئی تازہ سا بہانا تلاش لیا جائے اور ایسے بہانوں کیلئے دوست یا ر کافی مدد گارثابت ہوتے۔ اس لئے جب کھاتے تو بہانے بھی تلاش کرکے دے دیتے اور عموماً یہ بہانے کار گر ثابت ہوتے۔  اور دوستی کی لاج بھی رکھ لی جاتی ہے اور گھر والوں کو بھی اطمینان دلا دیا جاتا ہے۔ تا ہم کبھی کبھی بہانے فیل بھی ہو جاتے ہیں اور جب فیل ہوتے ہیں تو چلیں چھوڑیئے۔  ہر بات بتانے کی بھی تو نہیں ہوتی نا۔  کچھ باتیں راز ہی رہیں تو اسی میں فائدہ ہے۔