کہنے کو یہ بھی عید ہی تھی، اگرچہ ہمارے ہاں ایک وبائی بیماری کے پھیلاؤ کو روکنے کیلئے، وسیع لاک ڈاؤن تھا. بڑے شاپنگ مال اور مارکیٹیں بند تھیں. لوگ اس بات پر ابھی تک ناراض ہیں کہ وہ عید کی شاپنگ نہیں کر سکے۔ بالخصوص چاند رات کی خریداری، ہم تو کورونا کی پرواہ کئے بغیر، جان پر کھیل کر شاپنگ کیلئے تیار تھے، یہ حکومت نے عید کے رنگ پھیکے کر دئیے مگر کچھ اور واقعات بھی ہوئے جن کے باعث بھی عید کی خوشیو ں کا رنگ پھیکارہا۔کیونکہ وہ بھی ہمارے ہی بھائی بہنیں ہیں، جن پر اسرائیل کی سفاک فوج نے لیلۃالقدر سے ہی بربریت کی انتہا کر رکھی ہے۔ جن کومسجد اقصیٰ میں عبادت بھی نہیں کرنے دی گئی۔فلسطینیوں کے خون کی پیاسی صیہونی فوج نے اس مقدس مقام کی حرمت کو بھی پامال کر دیا، جو ان کے مذہب میں بھی قابل احترام ہے اور پھر اسی پر بس نہیں کیا، بلکہ غزہ کی جو تھوڑی سی پٹی فلسطینی عربوں کو میسر ہے، جہاں وہ جگہ کم اور آبادی زیادہ ہونے کی وجہ سے کثیر منزلہ فلیٹوں میں رہتے ہیں، وہاں بمباری کرکے تباہی مچا دی اور اب تو مسلسل اور تباہ کن بمباری کے بعد، بچے کھچے شہریوں کو ختم کرنے کیلئے اسرائیل نے غزہ میں زمینی فوج بھی اتارنے کی تیاریاں مکمل کر لی ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ سطور شائع ہونے تک فوج غزہ میں داخل ہوچکی ہو۔ مغربی کنارے کے مصلحت پسند اور امن کیلئے اسرائیل کی اطاعت قبول کرنے والے فلسطینیوں کو بھی محصور کر دیا گیا ہے۔ لیلۃ القدر سے لے کر آج تک کوئی دن یا رات ایسا نہیں گزرا، جس کا ایک لمحہ ان مظلوم فلسطینیوں کیلئے آگ اور بارود کی برسات سے خالی گزرا ہو۔ غزہ میں انتظامی کنٹرول رکھنے والی تنظیم حماس کے فدائین نے اپنے پاس میسر دفاعی ہتھیار، چھوٹے میزائل، اسرائیل کی طرف داغے، لیکن ان سے اسرائیل کو نقصان کیا پہنچنا تھا، الٹا ان میزائلوں کی تباہ کاریوں کی جھوٹی خبریں پھیلا کر اپنے ظلم کو جواز بنا لیا گیا. یہ دنیا میں اثر پذیر صیہونی میڈیا کی منافقت ہے کہ اسرائیل کے حملوں سے نقصان کو کم اور حماس کے میزائیلوں سے زیادہ نقصان دکھا کر، ایسا ماحول بنا رہا ہے کہ جیسے دو برابر کے ممالک کے درمیان جنگ ہو رہی ہو۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ اقوام متحدہ، امریکہ اور یورپ، دونوں کو جنگ بند کرنے اور صبر و تحمل کا مظاہرہ کرنے کا مطالبہ کر رہے ہیں۔ کہاں کی جنگ اور کیسا مقابلہ! ایک طرف اسرائیل ہے، جو ساری دنیا کی سامراجی طاقتوں کا پروردہ اور جدید ترین ہتھیاروں سے لیس ملک ہے، جس کے تباہ کن ہتھیار بھارت سمیت کئی ممالک خریدتے ہیں، ڈرون ٹیکنالوجی میں اسرائیل امریکہ سے بھی آگے ہے اور سیٹلائٹ کے ذریعے اپنے ہدف کو سو فیصد درست نشانہ بنا سکتا ہے. دوسری طرف مجبور و مقہور فلسطینی ہیں، جن کو خوراک بھی اسرائیل کی اجازت سے ملتی ہے۔ کوئی دوسرا ملک ان کو کھانے پینے کی اشیاء اور ادویات بھی آزادانہ نہیں دے سکتا۔ ان کو ہتھیار تو مل ہی نہیں سکتے، صرف بے ضرر سے کچھ میزائل خود اسرائیل کی مرضی سے رکھنے کی اجازت ہے، وہ بھی اس لیے کہ اسرائیل ان کا جواز بنا کر اپنے ”دفاع“ کے نام پر بربریت کا کھیل جاری رکھ سکے اور اس وقت اسی مکر و فریب اور منافقت کا مظاہرہ ہو رہا ہے۔ ایسا نہیں کہ دنیا دیکھ اور سمجھ نہیں سکتی، مگر مسلمان دشمنی کے مشترکہ مقصد میں سارے ممالک متحد ہیں کچھ اسرائیل کو صبر کرنے کا کہتے ہیں اور کچھ خاموش تماشائی ہیں، امریکہ کا کہنا ہے کہ اسرائیل کو اپنے دفاع کا حق ہے اور اس منطق پر ساری دنیا کی زبانیں گنگ ہو جاتی ہیں اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا اجلاس بھی ظلم روکنے کیلئے نہیں، بلکہ ظالم کو اپنا ظلم آزمانے کا مزید موقع دینے کیلئے ہوتا ہے. اس سے بڑی ناانصافی کیا ہوگی کہ اسرائیل اور بھارت جیسے ممالک، جو اقوام متحدہ کی بات سننے کو تیار نہیں، ان کو اپنے ناجائز تسلط کیلئے بھی اقوام متحدہ کی ہی حمایت مل جاتی ہے‘ انکے خلاف قرارداد بھی ویٹو ہوجاتی ہے۔ خیر یہ تو طاقتور کی ناانصافی کو تحفظ دینے کا فورم ہے، جہاں چار بڑی طاقتوں میں سے ایک بھی ساری دنیا کے خلاف فیصلہ دے دے تو وہی موثر ہوجاتا ہے جہاں تک او آئی سی اور اس کے اجلاس کی بات ہے تواس کا نتیجہ پہلے ہی سب کو معلوم ہے‘جہاں تک فلسطینیوں کا تعلق ہے تو وہ اپنے "بھائیوں " کی ہمدردی سے آگاہ ہیں انکو کوئی توقع ہی نہیں خصوصا غزہ کے شہری‘جب تک ان کے بچوں میں فلسطین اور بیت المقدس سے وفا، خون اور دودھ کے ذریعے منتقل ہوتی رہے گی، وہ اپنے سینوں پر بم اور گولیاں کھا کر دنیا کے مسلمانوں کی غیرت کو جھنجھوڑتے رہیں گے اور ہم جیسے مسلمان‘ کسی شرمندگی کے بغیر‘ نہ صرف عید مناتے رہیں گے‘ بلکہ شاپنگ کے ریکارڈ بھی قائم کرتے رہیں گے۔