بغیر امتحان پروموشن۔۔۔۔

امتحان اور کامیابی کا نظام توایک فطری نظام ہے۔ کسی بھی میدان میں آپ کی کامیابی اسی صورت میں ہوتی ہے کہ جب آپ کا امتحان لیا جائے اور اس میں آپ کتنے فی صد سوالوں کے صحیح جواب دیتے ہیں اور اس کے لحاظ سے ہی آپ کو کامیابی یا ناکامی کا منہ دیکھنا ہوتا ہے۔ مذہبی لحاظ سے دیکھیں تب بھی ہمارا ایمان تو یہی ہے کہ ہمیں اپنے دنیا میں کئے گئے اعمال کی قیامت کے روز جواب دہی کرنی ہے اور اس ہی کی بنا پر ہماری کامیابی یا ناکامی کا اعلان ہونا ہے۔ دنیا داری میں بھی ہمیں مختلف جگہوں پر امتحانات ہی کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ان امتحانات میں میں کامیابی یا ناکامی کا انحصار ہمارے جوابات پر ہی ہوتا ہے  اس دفعہ دنیاایک بڑے  عذاب میں مبتلا ہے جس کی وجہ سے ہمیں اپنے تعلیمی ادارروں میں تعلیمی سرگرمیوں کو معطل کرنا پڑا ہے۔اس تعطل میں پہلی دفعہ تو دیکھا گیا کہ طلبہ کی تیاری نہ ہونے کے برابر ہے اور اس میں ان کاکوئی قصور بھی نہیں۔ اس لئے فیصلہ کیا گیا کہ اس دفعہ طلباء کو بغیر امتحان کے پروموٹ کر دیا جائے تا کہ ان کا تعلیمی سال ضائع نہ ہو مگر اس میں جو تعلیمی نقصان ہو ا اس کو شاید زندگی بھر پورا نہ کیا جا سکے  اور چونکہ تعلیمی نظام ایسا ہوتا ہے کہ اس کا ہر سال پچھلے سال سے جڑا ہو تا ہے اس لئے ایک سال کی کمی  اگلے سالوں پر اثر انداز ہوتی ہے اور طلباء میں جو یہ کمی آتی ہے اس کا پورا کرنا ممکن نہیں ہوتا۔ پھر بھی ہمارے اساتذہ کرام کوشش کرتے ہیں کہ کسی طرح سابقہ درسی کمی کو پورا کرتے رہیں۔مگر سال میں جتنے دن کام کیلئے ہوتے ہیں اس میں کمیاں صحیح طرح سے  پوری نہیں ہوا کر تیں تاہم یہ سلسلہ ایک وبائی مرض کی وجہ سے  جو منقطع ہوا تو یہ ایک ایسی مجبوری تھی کہ جس کا ازالہ بوجوہ ممکن نہیں۔ تا ہم اب یہ فیصلہ تو ہوا کہ بغیر امتحان کے بچوں کو اگلے تعلیمی سال میں نہ بھیجا جائے مگر اس کے ساتھ یہ بھی ہے کہ مرض کا زور اتنا ہے کہ پھر سے تعلیمی سرگرمیاں معطل ہیں۔ اب یہی ہو سکتا ہے کہ جتنا کچھ کورس تعلیمی سال کے اندر مکمل ہو ا ہے اسی کا امتحان لے لیا جائے اور پروموشن کر دی جائے اور دوسرے یہ بھی ہو سکتا ہے کہ تعلیمی سال کے  دورانئے میں اضافہ کر دیا جائے۔ مگر اس میں بھی ایک رسک تو ہے کہ جو عرصہ بڑھایا جائے کیا اس میں وبا پر قابو پایا جا سکے گا یا نہیں  اور جب ایس او پیز پر عمل درآمد نہیں ہو گا تو ایسے میں وباء میں کمی کی بجائے اضافہ  ہو گا اور دیکھنے میں آ رہا ہے کہ اضافہ ہورہا ہے اوراس اضافے کی وجہ سے ایک  دفعہ پھر تعلیمی سرگرمیاں معطل ہو گئی ہیں۔ اب صرف ایک ہی طریقہ رہ گیا ہے کہ امتحانات کیلئے مزید وقت دیا جائے  اور چونکہ حکومت نے فیصلہ کر لیا ہے کہ امتحانات ضرور لئے جائیں گے تو اس کیلئے کورسز میں کمی کی جائے گی یا تعلیمی سال میں اضافہ کرنا پڑے گاا ور اگر تعلیمی سال میں اضافہ کیا جاتاہے  تو ایک سال تو ضائع ہو ہی جائے گا اس لئے کہ جو امتحانات مارچ اور اپریل میں ہونے تھے اگر ان کو نومبر یا دسمبر تک لے  جایا جاتا ہے تو سال تو ضائع ہو ہی گیا نا۔  اس لئے کہ نومبر دسمبر میں لئے گئے امتحانات  کے نتائج تو ظاہر ہے کہ مارچ اپریل تک ہی ممکن ہو سکیں گے اور اپریل میں تو عام طور پر نیا تعلیمی سال شروع ہو ہی جاتا ہے۔ مسائل کا انبار ہے اور بچوں کی تعلیم کے ساتھ ساتھ ان کی صحت کی حفاظت بھی ضروری ہے۔