افغان حکومت کا ناقابل فہم رویہ۔۔۔

پاکستان کی کوششوں سے غیر ملکی افواج واپس جا رہی ہیں،افغانستان میں نیا جمہوری دور شروع ہورہا ہے تو ایسے میں افغان حکومت کھل کر پاکستان کے خلاف ہو گئی ہے۔ افغان صدر کے قومی سلامتی کے مشیر حمد اللہ محب نے گزشتہ دنوں صوبہ ننگرہار میں جو ہرزہ سرائی کی ہے، یہ نظر انداز کرنے کی نہیں ہے اور نہ ہی افغان سفیر کے سامنے احتجاج کرنے سے اس کی تلافی ممکن ہے۔ یہ افغان حکومت کے اہم عہدیدار کی طرف سے پاکستان مخالف مہم اور تحریک چلانے کی ابتدا ہے۔ موصوف صدر اشرف غنی کی خصوصی ہدایت پر اس ملک گیر مہم پر نکلے ہیں۔ اس کی ابتدا ننگرہار کے تین روزہ دورے سے کی گئی ہے۔ اس کا واضح مقصد پاکستان کے خلاف افغانوں، بالخصوص پشتونوں کو بھڑکانا ہے۔ پاکستان کو ایک دشمن ملک کی طرح پیش کرنا ہے اور مستقبل میں نفرت کی آبیاری کرنی ہے۔عید کے دن، جب مسلمان محبت اور امن کی بات کرتے ہیں اور ایک دوسرے سے ناراضگی ختم کرتے ہیں،افغان حکومت نے اس درخشاں روایت کو بھی پامال کر دیا ہے،اس سال تو سارا عالم اسلام عید کے دن، غزہ پر اسرائیل کی جارحیت اور فلسطینیوں کی نسل کشی پر مغموم اور دکھی تھا، لیکن افغان حکومت کے اہم نمائندے نے پاکستان جیسے محسن ملک اور اس کے عوام کے خلاف نفرت انگیزی سے عید منائی ہے۔ بڑی المناک سچائی یہ بھی ہے کہ جس وقت افغان قومی سلامتی کا مشیر،ننگرہار میں پاکستان کو دشمن ثابت کر رہا تھا، عین اس وقت پاکستان سے ہزاروں ٹن خوراک اور دیگر ضروریات زندگی سے لدے ٹرکوں کا قافلہ افغانستان کی طرف رواں دواں تھا۔ جبکہ پچیس ہزار سے زائد افغانی،پاکستان میں داخل ہونے کیلئے بارڈر پر کھڑے تھے۔ اسی کے ساتھ پچاس لاکھ سے زائد افغان شہری پاکستان کے مختلف شہروں میں عید منا رہے تھے۔ افغانوں کی جتنی خدمت اور حفاظت پاکستان نے کی ہے،اس کا اندازہ لگانا بھی مشکل ہے۔ ان کی سرزمین پر سوویت یونین کے قبضے کے خلاف جدوجہد کو اپنی جنگ سمجھ کر، پاکستان نے جانی اور مالی نقصان اٹھایا۔ لاکھوں مہاجرین کی کشادہ دلی سے میزبانی کی۔ یہ اسی میزبانی کا اثر ہے کہ یہاں سے کوئی افغان پناہ گزین واپس جانے کو تیار نہیں،جبکہ روزانہ ہزاروں مزید آنے کو سامان باندھے کھڑے ہوتے ہیں، لیکن ایک افغان عہدیدار زمینی حقائق کو جھٹلاتے ہوئے افغانیوں کو ورغلانے کی کوشش کر رہا ہے۔ صرف وزارت خارجہ کے ترجمان کی طرف سے احتجاجی بیان ناکافی ہے، اس بیان کو امریکی حکام کے نوٹس میں لانا بھی ضروری ہے، جو پاکستان سے اس بات کی ضمانت چاہتے ہیں کہ فوج کا پرامن انخلاء ممکن ہو، لیکن افغان حکومت حالات کو خراب کرنے اور جنگجو گروہوں کو مہمیز دینے کی کوشش میں ہے، اس طرح کی حرکتوں سے ان افغان شہریوں میں بھی اشتعال پھیل سکتا ہے، جو پاکستان میں رہ رہے ہیں یا پاکستان آ کر رہنے کیلئے بے تاب ہیں۔ اس حقیقت سے انکار ممکن نہیں کہ افغان حکومت کی تمام تر اشتعال انگیزی کے باوجود افغانستان کی خوراک کی 60 فیصد ضروریات پاکستان ہی پوری کرتا ہے‘ جب کہ بھارت کی طرف سے صرف بدامنی اور پاکستان کے خلاف استعمال کیلئے اسلحہ اور پیسے ملتے ہیں۔ یہ بات صاف ہے کہ صرف بھارت ہی افغانستان میں امن کے خلاف ہے اور بدامنی اور جنگ سے ہی اس کا مفاد وابستہ ہے، جب کہ اپنے سیاسی مستقبل سے مایوس، افغان حکومت، اس کی آلہ کار بن کر پاکستان، امریکہ اور دنیا کی امن کی کوششوں کو سبوتاژ کر رہی ہے، اس بات کا عالمی برادری کو اور بالخصوصی نیٹو اور امریکہ کو بھی نوٹس لینا چاہئے۔