سیانے کہتے ہیں کہ اس دنیا میں رہنا ایک الگ سے ہنر اور آرٹ کا متقاضی ہے،اور یہ ہنر آپ کو فطرت ہر لمحہ مختلف حوالوں سے سکھا رہی ہوتی ہے بس اس میں بگاڑ اس وقت پیدا ہوتا ہے جب ہم فطرت کے اشاروں سے اغماض یا غفلت برتنا شروع کر دیتے ہیں، پھر یہ بھی کہا جاتا ہے کہ گزشتہ کل کی جو داستاتیں یا کہانیاں ہم تک سینہ بہ سینہ پہنچتی ہیں یا پھر کتابوں کی شکل میں ہمیں ورثے میں ملتی ہیں،ان میں بھی زندگی کو مثالی انداز میں گزارنے کے اسباق اور مشقیں مو جود ہو تی ہیں، مگر یار لوگ اپنے زعم میں ان کی پروا نہیں کرتے۔ میں نے بارہا بچپن میں پڑھی ہوئی نصابی غیر نصابی اور بزرگوں سے سنی ہوئی کہانیوں میں چھپی دانش کا ذکر کیا ہے،جن کی سمجھ مجھے نصف صدی کے بعد آئی تھی۔ کل ہی فیس بک پر ایک کہانی پڑھ کر میں بہت حیران ہوا، کتنی ہی دیر آنکھیں بند کر کے اکوڑہ خٹک میں اپنے پرائمری سکول ”تعلیم القران“ میں گھومتا رہا، ہیڈ ماسٹر غلام محمد سمیت کتنے ہی مہربان اساتذہ سے ملتا رہا جن کو بچھڑے بھی ایک زمانہ بیت گیا۔ مگر رکیئے۔پہلے آپ بھی کہانی پڑھ لیں۔”ایک شخص نے چڑیا پکڑنے کیلئے جال بچھایا.. اتفاق سے ایک چڑیا اس میں پھنس گئی اور شکاری نے اسے پکڑ لیا..چڑیا نے اس سے کہا.. '' اے انسان! تم نے کئی ہرن ' بکرے اور مرغ وغیرہ کھائے ہیں ان چیزوں کے مقابلے میں میری کیا حقیقت ہے.. ذرا سا گوشت میرے جسم میں ہے اس سے تمہارا کیا بنے گا..؟ تمہارا تو پیٹ بھی نہیں بھرے گا.. لیکن اگر تم مجھے آزاد کر دو تو میں تمہیں بڑے ہی کام میں آنے والی نصیحتیں کرونگی جن پر عمل کرنا تمہارے لئے بہت مفیدہوگا..ان میں سے ایک نصیحت تو میں ابھی کرونگی.. جبکہ دوسری اس وقت کرونگی جب تم مجھے چھوڑ دو گے اور میں دیوار پر جا بیٹھوں گی.. اس کے بعد تیسری اور آخری نصیحت اس وقت کرونگی جب دیوار سے اڑ کر سامنے درخت کی شاخ پر جا بیٹھونگی.. ''اس شخص کے دل میں تجسس پیدا ہوا ا کہ نہ جانے چڑیا کیا فائدہ مند نصیحتیں کرے گی.. اس نے چڑیا کی بات مانتے ہوئے اس سے پوچھا.. '' تم مجھے پہلی نصیحت کرو ' پھر میں تمہیں چھوڑ دونگا.. ''چنانچہ چڑیا نے کہا.. '' میری پہلی نصیحت تو یہ ہے کہ'' جو بات کبھی ممکن ہی نہ ہو سکتی ہو اس کاکبھی یقین مت کرنا.. ''یہ سن کر اس آدمی نے چڑیا کو چھوڑ دیا اور وہ سامنے دیوار پر جا بیٹھی.. پھر بولی.. '' میری دوسری نصیحت یہ ہے کہ ''جو کام ہو جائے کبھی اسکا غم نہ کرنا..''اور پھر کہنے لگی.. '' اے بھلے مانس! تم نے مجھے چھوڑ کر بہت بڑی غلطی کی.. کیونکہ میرے پیٹ میں پاؤ بھر کا انتہائی نایاب پتھر ہے اگر تم مجھے ذبح کرتے اور میرے پیٹ سے اس موتی کو نکال لیتے تو اس کے فروخت کرنے سے تمہیں اس قدر دولت حاصل ہوتی کہ تمہاری آنے والی کئی نسلیں عیش کرتیں.. اور تم بہت بڑے رئیس ہو جاتے.. ''اس شخص نے جو یہ بات سنی تو لگا افسوس کرنے.. اور پچھتایا.. کہ اس چڑیا کو چھوڑ کر اپنی زندگی کی بہت بڑی غلطی کی.. اگر اسے نہ چھوڑتا تو میری نسلیں سنور جاتیں.۔ اس نے کہا کہ میرے ساتھ اچھا نہیں ہوا چلئے اب تیسری نصیحت بتاؤ۔۔.چڑیا اڑ کر درخت کی شاخ پر جا بیٹھی اور بولی.. '' اے بھلے مانس! ابھی میں نے تمہیں پہلی نصیحت کی جسے تم بھول گئے کہ ''جو بات کبھی ممکن ہی نہ ہو سکتی ہو اس کاہر گز یقین نہ کرنا..'' لیکن تم نے میری اس بات کا اعتبار کرلیا کہ میں چھٹانک بھر وزن رکھنے والی چڑیا اپنے پیٹ میں پاؤ وزن کا موتی رکھتی ہوں.. کیا یہ ممکن ہے..؟ میں نے تمہیں دوسری نصیحت یہ کی تھی کہ '' جو بات ہو جائے اسکا غم نہ کرنا''۔ مگر تم نے دوسری نصیحت کا بھی کوئی اثر نہ لیا اور غم و افسوس میں مبتلا ہو گئے کہ خواہ مخواہ مجھے کیوں جانے دیا.... تم نے میری پہلی دو نصیحتوں پر کب عمل کیا جو اب تیسری بھی بتاؤں.. تم نصیحت کے قابل نہیں.. ''یہ کہتے ہوئے چڑیا پھر سے ا ْڑ گئی.!!“ یہ کہانی کچھ دن پہلے میرے دوست محمد نیاز نے فیس بک پر شیئر کی تو مجھے اس لئے از حد حیرانی ہوئی کیونکہ یہ کہانی میں نے اپنی تیسری یا چوتھی کلاس کی نصابی کتاب (ٹیکسٹ بک) میں پڑھی تھی اور مزے کی بات یہ بھی ہے یہ کہانی میری پشتو کی نصابی کتاب میں تھی۔ میں نے شاید پہلے بھی کہیں لکھا ہے کہ اس زمانے کی کئی ایک کہانیاں نہ صرف مجھے یاد ہیں،تب میں نے نصابی ضرورت کی وجہ سے پڑھا تھا مگر ان کہانیوں میں زندگی کرنے کی ساری حکمتیں اب سمجھ آ رہی ہیں۔ بلکہ ایک بار توتوں کے بارے میں ایک کہانی (جب شکاری آئے گا۔۔) کا ذکر ایک کالم میں کیا تھا تو لکھا تھا کہ ”میرا حافظہ مجھے اوبلائج نہیں کر رہا کہ یہ کہانی میں نے بچوں کے کسی رسالے میں پڑھی تھی یا پھرہمارے نصاب میں تھی۔۔ تو دوست ِ بزرگ و مہرباں سلیم راز نے مجھے فون کر کے بتایا تھا کہ یہ چوتھی کی اردو کتاب میں تھی، مجھے معلوم نہیں کہ اس زمانے میں نصاب مرتب کرنے والا زعما کون تھے۔ خصوصاََ بچوں کی ابتدائی نصابی کتب میں چھوٹی چھوٹی کہانیوں کا انتخاب کن اساتذہ نے کیا تھا، اور کیا یہ لوک کہانیاں تھیں یا ان زعما کی طبع زاد کوشش تھی، مگر آج پیچھے مڑ کر ان کو یاد کرنے کی کوشش کرتا ہوں تو اس زمانے کی پڑھی ہوئی کہانیاں ابھی تک یادداشت کے پنوں پر جگر جگر کر رہی ہیں، اور ان کے اندر چھپی ہوئی دانش،بصیرت اور حکمت حیران کر دیتی ہے کہ زندگی کے برتنے اور زندگی کی تہذیب کیلئے ان کہانیوں میں جانے ایسا کیا طلسم بھر دیا گیا تھا کہ آج بھی وہ پرانی کہانیاں نئے طرز زندگی کے ساتھ اتنی ہی ہم آہنگ ہیں۔ پھر یہ بات بھی باعث ِ تعجب ہے کہ یہ کہانیاں میں نے اپنی اردو اور پشتو کی نصابی کتابوں میں پڑھی تھیں اور ایسا قطعا نہیں ہے کہ یہ کو ئی اردو سے پشتو یا پشتو سے اردو میں ترجمہ کی گئی کہانیاں تھیں،کیونکہ ترجمہ کرنے والا کتنا بھی باکمال شخص ہو وہ ان زبانوں کے الفاظ کو تو دوسری زبان میں منتقل کر دے گا لیکن کسی بھی زبان کے روزمرہ محاورے اور زبان کی چاشنی کو دوسری زبان میں کما حقہ ْ نہیں ڈھالا جاسکتا، اس لئے ترجمہ کا فن جتنا آسان سمجھا جاتا ہے اتنا ہی مشکل ہے کیونکہ اس میں ہر قدم پر نت نئی مشکلات اور پابندیوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ان کہانیوں میں چھپی بصیرت کی بات ہو یا فطرت کے اشاروں کا ذکر ہو۔سچ یہی ہے جو سیانے کہتے ہیں یعنی اس دنیا میں رہنا ایک الگ سے ہنر اور آرٹ کا متقاضی ہے،اور یہ ہنر آپ کو فطرت ہر لمحہ مختلف حوالوں سے سکھا رہی ہوتی ہے بس آنکھیں کھلی رکھنا پڑتی ہیں۔ عالم تاب تشنہ نے کہا ہے نا کہ۔۔ یہ اک اشارہ ہے آفات ِ نا گہانی کا
کسی جگہ سے پرندوں کا کوچ کر جانا