قومی سوچ اور تعاون کی ضرورت۔۔۔۔۔

 اس میں کوئی شک نہیں کہ آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک کی سفارشات ہمارے ملکی حالات اور زمینی حقائق سے بہت دور ہوتی ہیں، حکومتیں ایک طرف ان اداروں کے دباؤ اور دوسری طرف عوامی مجبوریوں اور مسائل کے درمیان پھنس جاتی ہیں، یہ معاملہ موجودہ حکومت تک محدود نہیں، بلکہ 2008 میں دوبارہ ملک کو آئی ایم ایف کے چنگل میں پھنسا نے سے شروع ہوا، اب یہ بات کسی کو اچھی لگے یا بری، حقیقت ہے کہ جنرل پرویز مشرف اور شوکت عزیز کے دور میں پاکستان آئی ایم ایف کے چنگل سے آزاد ہو گیا تھا، لیکن اس کے بعد آنے والی پیپلز پارٹی کی حکومت  نے جس کے پہلے وزیر خزانہ اسحاق ڈار تھے، نئے سرے سے آئی ایم ایف کے جال میں دوبارہ اپنا سر پھنسایا تھا اور پھر سال بہ سال اور حکومت در حکومت، اس بوجھ میں اضافہ ہی ہوتا گیا۔ موجودہ حکومت آئی تو سابقہ قرضے چکانے اور نظام چلانے کیلئے مزید قرضوں کی ضرورت تھی، جن کیلئے مزید سخت شرائط بھی لازمی تھیں، اس کے علاوہ ایف اے ٹی ایف کی شرائط کاالگ پریشر تھا۔ اس وقت بھی مہنگائی، بے روزگاری اور افراطِ زر عروج پر ہیں، حکومت کے چوتھے وزیرخزانہ شوکت ترین بجٹ پر کام کر رہے ہیں، یہ ایک پیشہ ور معیشت دان ہیں، بین الاقوامی سطح پر شناخت اور تعلقات بھی رکھتے ہیں، ان کی کوشش ہے کہ نیا بجٹ آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس اور عوام کی ضروریات کے مطابق بنایا جائے، اس کے لیے وہ آئی ایم ایف سے مذاکرات کرنے اور پاکستان کے زمینی حقائق پر ان کو قائل کرنے کی کوشش میں ہیِں اور توقع رکھتے ہیں کہ عالمی مالیاتی ادارے کو راضی کرلیں گے، آئی ایم ایف کی شرائط میں تنخواہوں میں اضافہ اور کسی بھی شعبے میں سبسڈی کی حوصلہ شکنی کرنا، پنشن کے بوجھ کو کم کرنا، بجلی وغیرہ کی قیمت بڑھانا اور ٹیکسوں میں اضافہ کرنا سرفہرست ہیں، لیکن وزیر خزانہ کا کہنا ہے کہ وہ تنخواہوں میں اضافہ بھی کریں گے، خاص حد سے نیچے زندگی گزارنے والوں کیلئے سبسڈی بھی دیں گے اور ٹیکسوں میں اضافہ بھی نہیں کریں گے، اور موجودہ ٹیکسوں اور شرح پر ہی وصولیوں پر توجہ دے کر محصولات بڑھائیں گے، خیالات اچھے ہیں، مگر ان کا دارومدار آئی ایم ایف کی رضامندی پر ہے۔ آئی ایم ایف کی جائزہ ٹیم جون کے پہلے ہفتے میں اسلام آباد آئے گی، اور نئے امدادی پروگرام کیلئے شرائط پر مذاکرات کرے گی،وزیر خزانہ شوکت ترین اپنے شعبے میں مہارت رکھتے ہیں، یہ زیادہ اچھے انداز میں آئی ایم ایف کی ٹیم کو اپنا موقف سمجھا سکتے ہیں۔ پاکستان کا سب سے بڑا پوائنٹ ہی یہی ہے کہ عوام مزید بوجھ نہیں اٹھا سکتے، اگر زیادہ بوجھ ڈالا گیا تو معیشت ہی بیٹھ جائے گی، اور بیرونی قرضے بھی ڈوب جائیں گے، اب آئی ایم ایف اپنی پالیسی نرم کرے تاکہ ملک بھی چلتا رہے اور قرضے بھی واپس مل سکیں۔ یہ صورتحال ان کیلئے پہلی نہیں ہے، اس سے پہلے مصر، یونان اور فلپائن ان حالات میں عالمی مالیاتی اداروں کو سفید جھنڈی دکھا کر مراعات اور بحالی پیکیجز لے چکے ہیں، اگر وزیر خزانہ نے صاف لفظوں میں حقیقی صورت حال سامنے رکھی تو آئی ایم ایف آسان شرائط پر امدادی پیکج دینے پر تیار ہو جائے گا، حالیہ دنوں میں اقتصادی شرح نمو 4 فیصد ہونے پر اپوزیشن سیخ پا ہو رہی ہے، حالانکہ یہ تجزیہ حکومت کا نہیں، بلکہ عالمی بینک کا ہے، اگرچہ بظاہر یہ زمینی حقائق کے خلاف لگتا ہے، لیکن اگر عالمی ادارے اس کو قبول کر رہے ہیں تو یہ ملک میں بین الاقوامی سرمایہ کاری کی راہ ہموار کر سکتا ہے، اپوزیشن کو صرف حکومت کی نہیں، بلکہ ملک کی بھی سوچنی چاہئے کیونکہ ملک کو قرضوں کی دلدل میں اس حد تک پہنچانے میں س