غزہ پر اسرائیل کی وحشیانہ بمباری اگرچہ رُک گئی ہے اور اب حماس انتظامیہ تباہ حال انفراسٹرکچر کا ملبہ ہٹانے اور سڑکوں کی مرمت کرنے میں مصروف ہے۔ پاکستان کی حکومت، سیاسی قیادت اور عوام نے جس اتفاق اور اتحاد سے فلسطینی بھائیوں سے اظہارِ یکجہتی کیا ہے، وہ قابل ستائش ہے. وزیر خارجہ قومی اسمبلی میں اپوزیشن اور حکومتی ممبران سے بھرپور اعتماد لے کر نیو یارک گئے تھے جہاں انہوں نے اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی اور میڈیا سے گفتگو اور انٹرویوز میں کھل کر پاکستان کا موقف پیش کیا، جسے ملک میں ہر سطح پر سراہا گیا۔ عوام کی حد تک جمعہ کو یوم یکجہتی میں ہر سیاسی جماعت اور طبقہ فکر نے مظاہرے کیے۔ اتوار کے دن کراچی میں جماعت اسلامی کا مارچ اور جلسہ بھی متاثر کن تھا۔ ایسی یکجہتی اور قومی اتفاق کم ہی دیکھنے کو ملتا ہے۔ لیکن اس کے ساتھ یہ بھی تلخ حقیقت ہے کہ اسرائیل اور بھارت 1948 سے لے کر آج تک، اقوام متحدہ کی قراردادوں کو ماننے کو تیار نہیں اور نہ ہی فلسطین اور کشمیر کے حقیقی وارثوں کو ان کے حق دینے کو تیار ہیں۔ چند سالوں کے وقفے کے بعد دونوں ریاستوں میں مسلمانوں کی نسل کشی اور قتل عام کی مشق دہرائی جاتی ہے۔ اس جنگی جرم پر دنیا آنکھیں بند کر کے تماشا دیکھتی رہتی ہے، بلکہ اسرائیل اور بھارت کو مظلوم بنا کر مزید ظلم کرنے پر اُکسایا جاتا ہے. جب یہ ممالک اپنا ہدف اور مقصد پورا کر لیتے ہیں تو جنگ بندی کرکے ہمدردی کے بیانات شروع ہو جاتے ہیں۔ یہ ایک عالمی سطح کا گٹھ جوڑ ہے اور بڑے منظم طریقے سے فلسطینی عربوں اور کشمیری مسلمانوں کو ختم کرنے کی مہم چلا رہا ہے۔حالیہ بحران میں بھی دیکھا گیا ہے کہ سلامتی کونسل کے اجلاس میں جنگ بندی کی قرار داد پیش ہوئی تھی، مگر امریکہ نے ایک ہفتہ اجلاس ہی نہیں ہونے دیا اور پھر ہر دفعہ قرارداد کو ویٹو کر دیا، مقصد صرف اسرائیل کو موقع دینا تھا کہ وہ غزہ میں اپنے اہداف کو تباہ کر سکے اور جب اسرائیل نے اپنا مقصد پورا کر لیا تو پھر جنگ بندی کی قرار دادیں پیش کی گئیں۔ بہرحال اس جنگ میں غزہ سے حماس کی طرف سے بھرپور مزاحمت کی گئی، ہزاروں میزائل اسرائیل کی طرف فائر کیے گئے، یہ الگ بات ہے کہ اسرائیل کے دفاعی نظام نے زیادہ تر میزائل راستے میں ہی تباہ کر دئیے لیکن اسرائیل اور پوری دنیا کو یہ پیغام ضرور پہنچ گیا ہے کہ جب تک چند سو فلسطینی بھی باقی ہیں، وہ اسرائیل کیغاصبوں کو سکون کی نیند نہیں سونے دیں گے، اسرائیل نے فلسطینیوں کے زیر قبضہ دو شہروں، غزہ اور رملہ کی جس طرح ناکہ بندی کر رکھی ہے، ایک سوئی تک بھی اسرائیل سے چھپا کر نہیں لائی جا سکتی، تو میزائل کیسے آ سکتے ہیں، یہ فلسطینیوں کے خود ساختہ راکٹ نما میزائل ہیں، جو وہ خفیہ غاروں میں بناتے ہیں، ان سے اسرائیل کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے۔ یہ حالیہ جنگ میں بھی دنیا نے دیکھ لیا، اس وقت فلسطین، کشمیر اور شام، لیبیا اور افغانستان کے شورش زدہ مسلمان ممالک کے مسائل کا حل صرف مضبوط اور موثر اسلامی تنظیم پر منحصر ہے، ایسی تنظیم جو اقوام متحدہ میں غیر منصفانہ توازن اور مسلمانوں کیلئے امتیازی سلوک کا توڑ کر سکے، جہاں مسلمان ممالک متفقہ طور پر اپنی آزادی اور خودمختاری کا اظہار کر سکیں اور اپنی طاقت وحیثیت کو تسلیم کروا سکیں۔