نیم تاریک ہال کے درمیان میں شیشے کے صندوق میں ہوچی منہہ کی حنوط شدہ لاش پڑی تھی... اب بھی فوجی وردی میں ملبوس کہ ان امریکیوں کا کیا پتہ کہ اسے یکدم یادآجائے کہ اوہو ان ویت نامیوں نے امریکہ کو سب سے بڑی شکست سے دوچار کیا تھا‘دنیا بھر میں ذلیل کرکے رکھ دیا تھا تو چلو ان سے بدلہ لیتے ہیں‘ پھر سے ویتنام پر حملہ کر دیتے ہیں‘ چنانچہ ہوچی منہہ فوجی وردی میں اسلئے ملبوس تھا کہ طبل جنگ بجتے ہی اپنے صندوق سے باہر آجائے‘ وردی پہننے پر وقت ضائع نہ ہو... یہ میری پہلی حنوط شدہ لاش نہ تھی... میں اس سے پیشتر ماسکو کے سرخ چوک لینن مسولیم میں زیرزمین ایسے ہی شیشے کے صندوق میں کامریڈ لینن کو دیکھ چکا تھا... تھری پیس سوٹ میں اور ٹائی کی گرہ ہمیشہ کی طرح موٹی اور بھدی...فرنچ کٹ داڑھی موم سے اکڑی ہوئی‘ اور اسکے برابر میں جوزف سٹالن کی لاش دبیز مونچھوں سمیت اور فوجی وردی میں کہ اسکی قیادت میں روس نے نازی فوج کی قہرسا مانیوں کو شکست دی تھی‘ اگر روسی جنگ میں شریک نہ ہوتے تو پورا یورپ‘ انگلینڈ اور امریکہ وغیرہ ہٹلر کو شکست نہ دے سکتے‘ ہٹلر کے محکوم ہوگئے ہوتے‘روس‘ پولینڈ پر نازی حملے کے بعد بادل نخواستہ دوسری عالمی جنگ میں شریک ہوا... کہا جاتا ہے کہ تب موٹا متعصب دیگر اقوام خاص طورپر ہندوستانیوں کو حقارت سے دیکھنے والا ونسٹن چرچل‘ برطانیہ کا وزیر اعظم نہارہاتھا جب اسکے سیکرٹری نے دروازے پر دستک دیکر خبر دی کہ سر سوویت یونین نے جرمنی کیخلاف جنگ کا اعلان کردیا ہے تو چرچل صاحب باہرآگئے اور خوشی سے رقص کرتے کہنے لگے”اب روسی ریچھ نازی جرمنی سے لپٹ جائیگا اور اسے ماردے گا...ہم جنگ جیت گئے“اور یہ جوزف سٹالن کی جنگی حکمت عملی کا معجزہ تھا کہ بے شک دو کروڑ کے قریب روسی اس جنگ میں ہلاک ہوئے لیکن یہ جنرل ذوفوف کے زیر کمان روسی فوج تھی... ذوفوف نے تقریباً تین سو بھاری توپوں سے برلن پر حملے کا آغاز کیا... کہا جاتا ہے کہ جب یکبار ان توپوں میں سے گولے نکل کر برلن کے قریب ایک جنگل پر گرتے تھے تو وہ پورا جنگل انکے دھماکوں سے زمین سے اٹھ جاتا تھا اور پھر تباہ ہوجاتا تھا‘ سپریم کمانڈر سٹالن‘ ذوفوف کو ماسکو کے کریملن میں بیٹھا ہدایات دے رہا تھا اور یہ روسی فوج تھی جو سب سے پہلے برلن میں داخل ہوئی‘ اسکی آمد کی خبر پاکر ہٹلر نے اپنے زیرزمین بنکر میں اپنے اپنے سٹاف انکے بچوں اور اپنی محبوبہ کے ساتھ خودکشی کرلی اور انکی لاش جلادی گئی تاکہ روسیوں کے ہاتھ نہ لگے... برلن کی پارلیمنٹ پر یعنی”رائخ سٹیگ“ کے گنبد پر چڑھ کر نازی پرچم نوچ پھینکنے والا اور اسکی جگہ سرخ پرچم لہرانے والا روسی فوجی مسلمان تھا شاید ازبک یا قزاق تھا... بے شک سٹالن نے بہت ظلم کئے‘ لاکھوں لوگوں کو بے گھر کیا‘زنداں میں ڈالا... لیکن یہ اسکا آہنی ہاتھ تھا جس نے نازی جرمنی کا گلا گھونٹ ڈالا... وہ آج بھی جارجیا کے لوگوں کا سب سے بڑا ہیرو ہے‘ خردشوف کا عہد آیا تو اس نے سٹالن کو تاریخ بدر کردیا اسکی لاش کو مقبرے سے نکال کر کریملن کی دیوار کے سائے میں دفن کر دیا... لینن اکیلا رہ گیا‘ کچھ برس پیشتر جب میں ماسکو یونیورسٹی میں لیکچر دینے کیلئے گیا تو بے چارہ لینن تنہا پڑا تھا‘ اور مجھے شک ہے کہ اسکے دن بھی تھوڑے رہ گئے ہیں... سٹالن اور لینن کے علاوہ میں نے تیسری حنوط شدہ لاش ماؤزے تنگ کی بیجنگ کے تھیان من سکوئر کے درمیان ایک مقبرے میں پڑی دیکھی‘ وہ بھی اپنے خصوصی”ماؤکوٹ“ میں ملبوس تھا تو یہ ہوگئیں کل تین حنوط شدہ لاشیں اور یہ چوتھی ہوچی منہہ انکل کی تھی‘ چاچاہوکے بلند سنگ مرمر کے مقبرے کے گرد باغ ہیں‘ سیرگاہیں اور ریستوران ہیں اور اسکی رہائش گاہ محفوظ ہے... وہ صدارتی قصر جہاں ہوچی منہہ امریکہ کیخلاف جنگ کی منصوبہ بندی کرتا تھا وہ بھی قائم ہے‘ ہوچی منہہ کا دیدار کرنے کی خاطر بہت سویرے سویرے بیدار ہونا پڑتا ہے اور اس طویل قطار میں شامل ہوکر دھیرے دھیرے رینگنا پڑتا ہے جس میں ویت نام کے طول و عرض سے آئے ہوئے لوگ اپنے عظیم رہنما کو خراج عقیدت پیش کرنے کی خاطر نہایت منظم انداز میں سرکتے جاتے ہیں‘ ہم بھی انکے ہمراہ سرک رہے تھے اور مقبرہ ہم سے بہت فاصلے پر تھا جب یکدم کہیں سے ویتنامی فوج کے دو افسر مارچ کرتے ہوئے آئے اور سمیر کی ویتنامی سیکرٹری سے کچھ وضاحتیں طلب کیں‘سمیر نے ایک ڈپلومیٹ کی حیثیت سے حکومت سے درخواست کی تھی کہ ہمیں سرکاری طورپر ہوچی منہہ کے مقبرے میں داخل ہونے کی اجازت دی جائے چنانچہ ہم قطار سے الگ ہوئے بلکہ کردیئے گئے‘ معزز غیر ملکی مہمان قرار پائے اب ایک وسیع میدان کے درمیان میں ہم مارچ کرتے ہوئے ویتنامی فوجی افسروں کے پیچھے پیچھے چل نہیں رہے تھے بلکہ ان سے قدم ملاتے بھاگ رہے تھے... مقبرے کے داخلے پر بھی ہمیں اولیت دی گئی... اس نیم تاریک ہال کے درمیان میں شیشے کے صندوق میں انکل ہوکی حنوط شدہ لاش نمائش پر تھی‘ میں نے نوٹ کیا کہ وہ ویتنامی جو قطار میں کھڑے چہلیں کر رہے تھے ہنس کھیل رہے تھے ہال میں داخل ہوتے ہی مودب ہوگئے...اجازت نہ تھی حکم تھا کہ ٹھہریئے‘ رکئے مت‘ چلتے جایئے ورنہ میں ٹھہر کر ہوچی منہہ سے کچھ گفتگو کرتا... پوچھتا کہ اے چگی داڑھی والے منحنی سے بابے تیرے اور تیری قوم کے پاس وہ کونسی گیڈر سنگھی ہے جسکے جادو سے تو نے امریکہ اور فرانس ایسی سپرپاورز کو دھول چاٹنے پر مجبور کر دیا‘ دوست نہ تیرے پاس فرانس میں قلعے ہیں سرے میں محل ہیں‘ سوئٹزر لینڈ کے بنکوں میں ہیرے جواہرات ہیں... پارک لین میں لاکھوں ڈالروں کے فلیٹ اور دیگر جائیدادیں ہیں‘ نہ محلات ہیں نہ تیرے محلات کے دروازوں پر شیروں کے مجسمے ہیں اور نہ تونے کبھی ڈھائی کروڑ روپے کی گھڑی کلائی پر باندھی... اور نہ ہی تیری رہائش گاہوں کی وسعت اتنی ہے کہ ان پر شہروں کا گمان ہوتو اے چاچا ذرا بتا دے‘ وہ تو ایک حنوط شدہ موم کا پتلا تھا‘ اس نے کیا جواب دینا تھا۔ باہر آئے تو وسیع سبزہ زاروں کے درمیان ہوچی منہہ کا گھر تھا‘ اس کا مختصر بیڈ روم... چند کرسیاں... ایک ہیٹ... ڈائننگ روم... اجلاس روم اور اس کی لائبریری... عجب باباتھا مطالعے کا بھی شوقین تھا‘لیکن ماؤزے تنگ کی مانند سگریٹ بہت پیتا تھا... اسی کمپاؤنڈ میں ہنوئی کی ایک اور پہچان صرف ایک ستون پر معلق پگواڈا تھا‘ میں ڈرتے ڈرتے سیڑھیاں طے کرکے اس پر گیا کہ کہیں میرے بوجھ سے وہ مسمار نہ ہو جائے لیکن وہ اپنی ایک ٹانگ پر کھڑا رہا... سامنے کے تالاب میں کنول کے سرخ پھولوں تلے پانیوں میں سرخ مچھلیاں تیرتی تھیں‘ سرخ سلطنت کے کنول اور مچھلیاں بھی سرخ تھیں‘ وہاں کے شجروں میں پرندے مسلسل کوکتے تھے... ویت نامی لڑکیوں کا ایک غول کا غول آیا اور میمونہ کو گھیرلیا اور اسکے ساتھ تصویریں اتروانے لگا وہ اسکے لباس کو ہاتھ لگا لگا کر دیکھتی تھیں کہ یہ کڑھائی اور دل کشی کہاں کی ہے تو وہ کہتی تھی پاکستان کی سندھ کی... تب ہوچی منہہ کی سادہ رہائش گاہ پر جھکے ایک گھنے شجر میں روپوش ایک پرندہ کوکنے لگا..