چوہدری نثار علی خان نے بالاخر پنجاب کی صوبائی اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے حلف اٹھا ہی لیا اور حقیقت تو یہ ہے کہ عوام آپ پر اعتماد کر کے آپکو کسی ذمہ داری کیلئے منتخب کرتے ہیں تو پھر کو ئی وجہ نہیں ہونی چاہئے کہ آپ اپنے لوگوں کو جنہوں نے آپ پر اعتبار کر کے اپنی نمائندگی کیلئے منتخب کیا ہے تو اس کے بعد روٹھ کر بیٹھ جانا کہ ہمیں اکثریت نہیں مل سکی اس لئے ہم اسمبلی میں نہیں جاتے یا کسی اور وجہ کو سامنے لائیں۔ اس وقت تک تو آپ خود مختارہیں کہ جب تک عوام آپکو چن نہیں لیتی مگر جب آپکے حلقے کی عوام آپکو اسمبلی کے رکن کی حیثیت سے چن لیتی ہے توپھر ان نمائندگی اس ایوان میں کرنا آپ کی ذمہ داری ہے جس کیلئے انہوں نے آپ کو وٹ دے کر منتخب کیا۔چاہے آپ کی پارٹی الیکشن ہار گئی ہے اور صرف آپ ہی اسمبلی میں جا پہنچے۔ کیا اسمبلی میں ہر پارٹی کو اکثریت حاصل ہوتی ہے؟۔جواب تو یہی ہے کہ نہیں۔ اسمبلی میں اکثریت تو صرف ایک ہی پارٹی کو مل سکتی ہے اور سب جانتے ہیں کہ ایک پارٹی حزب اقتدار میں ہوتی ہے اور باقی پارٹیاں حزب اختلاف میں ہوتی ہیں اور ان دونوں کا رول برابر کا ہوتاہے۔یہ ضروری تو نہیں ہوتاکہ ایک پارٹی ہر بار اقتدار کی کرسی پر ہی بیٹھے۔ یہ تو عوام کی مرضی ہے کہ وہ کس کو اقتدارکی کرسی پر بٹھا تے ہیں۔جن کو اکثریت نہیں ملتی ظاہر ہے وہ مخالف بنچوں پربیٹھتے ہیں اور دونوں بنچوں کا رول ایوان میں ضروری ہوتا ہے۔ یہ کہنا کہ چونکہ ہمیں اکثریت حاصل نہیں ہے اس لئے ہم ایوان میں بیٹھتے ہی نہیں ہیں یہ نامناسب طرز عمل ہے۔ یہ تو ہماری ریت بن چکی ہے کہ جو بھی پارٹی اکثریت حاصل نہیں کر پاتی وہ الزام دھر دیتی ہے کہ اکثریت حاصل کرنے والی پارٹی نے دھاندلی کی ہے۔ ہم بہت دفعہ الیکشن میں پریزائڈنگ افسرا کے فرائض انجام دے چکے ہیں۔ ہمیں تویہ کبھی بھی معلوم نہیں ہو سکا کہ کس طرح سے کوئی دھاندلی کرتا ہے۔ اسلئے کہ پریزائڈنگ افسر کا کام تو صرف اتنا ہوتا ہے کہ وہ دن بھر حلقے کے عوام سے ووٹ لیتا ہے۔ ووٹ دینے والے جب ووٹ ڈالنے آتے ہیں تو امیدواروں کے ایجنٹ اُن کی شناخت کرتے ہیں اس کے بعد اُن کو ووٹ دیا جاتا ہے اور وہ خفیہ طورپراس ووٹ پر اپنے امیدوار کے سامنے مہر لگاتے ہیں اور ووٹ کو سب کے سامنے بکس میں ڈال دیتے ہیں۔ اس میں پریزائڈنگ افسر یا اس کے عملے کو کوئی بھی عمل دخل نہیں ہوتا کہ کوئی کس کو ووٹ کرتا ہے۔جب ووٹ کا وقت ختم ہوتا ہے تو پریزائڈنگ افسر سارے ایجنٹوں کے سامنے بکسوں سے ووٹ نکالتاہے اور امیدواروں یا ان کے ایجنٹوں کے سامنے گنتی کر کے اس سٹیشن پرحاصل شدہ ووٹوں کو امیدواروں کے سامنے تھیلوں میں بند کرکے ان سے اس سارے عمل کے شفاف ہونے کے دستخط لیتا ہے اور ان ساری چیزوں کو تھیلوں میں بند کر کے ریٹرننگ افسرکے پاس لے جاتا ے جہاں پھر امیدوار یا امیدار وں کے ایجنٹ موجود ہو تے ہیں اور ان کے سامنے وہ تھیلے ریٹرننگ افسر کے حوالے کر دیتا ہے یہ سارا عمل چونکہ امیدواروں یا ان کے ایجنٹوں کے سامنے ہوتاہے اور وہ اس کی شفافیت کی تصدق کرتے ہیں اس لئے دھاندلی والی بات تو ہم کو کبھی نظر نہیں آئی۔ہاں اتناہے کہ جو بھی امیدوار ہارتا ہے وہ الزام ضرور لگاتا ہے کہ دھاندلی ہوئی ہے۔ مگر وہ یہ نہیں بتاتا کی دھاندلی کیسے ہوئی ہے۔ اس لئے کہ امیدوار یا اس کے ایجنٹ اس سارے عمل کے گواہ ہوتے ہیں اور وہ اپنی گواہی کے دستخط کرکے آگے بھیجتے ہیں۔ووٹوں اور دیگر سامان کے تھیلے ایجنٹوں کے سامنے سیل کئے جاتے ہیں اور اس کی تصدیق بھی امیدوار یا ان کے ایجنٹ کرتے ہیں۔ جب سارا عمل سارے امیدواروں کے سامنے ہوتا ہے تو پھر یہ دھاندلی والی بات کو ہم تو کبھی بھی نہیں سمجھ سکے۔ووٹ ڈالنے ان کو اکٹھا کرنے او ر ان کو ریٹرننگ افسرتک لے جانے میں امیدوار یا ان کے ایجنٹ ہر وقت موجود ہوتے ہیں اور وہ ایک ایک عمل کی گواہ ہوتے ہیں اور ہر کام کی شفافیت پر وہ دستخط کرتے ہیں تو اس کے بعد دھاندلی کا الزام بھی لگا دیتے ہیں یہ البتہ ہماری سمجھ سے بالا تر ہے۔