پاکستان سے نظریاتی سیاست کب کی ختم ہو چکی، اب تو صرف انتخابی بیانیہ کی سیاست رہ گئی ہے، اسی طرح اب اقدار کے بجائے اقتدار ہی سیاستدانوں کو مطلوب و مرغوب ہے، تحریک انصاف کی دبنگ انٹری سے یہ امید لگی تھی کہ ماضی میں حکمرانی کرنے والی سیاسی جماعتیں، خاندانی مفادات کیلئے ملکی مفادات کو تاراج کرتی رہی ہیں، اب اس کا خاتمہ ہوگا اور احتساب و انصاف کے ساتھ ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا، لیکن یہ امید پوری نہ ہوسکی، البتہ اس سے ایک نقصان یہ بھی ہوا کہ ماضی کی حکمران جماعتوں کو نئی زندگی مل گئی، دوسرے لفظوں میں سیاسی خاندانوں کی نئی نسل کیلئے راہ ہموار ہوگئی، پاکستان پیپلز پارٹی کی حد تک تو قیادت کی منتقلی پر کوئی تنازعہ نہیں اور سابق وزیر اعظم بینظیر بھٹو کے بیٹے بلاول بھٹو غیر متنازعہ لیڈر ہیں، انہوں نے اپنے والد آصف زرداری کے انداز سیاست اور بیانیہ کو پوری طرح اپنا لیا ہے، بلاول پر کوئی براہ راست کرپشن کاالزام نہیں، پوری پارٹی، بزرگ قائم علی شاہ سے لے کر نوجوان مرتضیٰ وہاب تک بلاول کو قائد تسلیم کرتے ہیں۔ اس کے برعکس مسلم لیگ ن کی قیادت میں ابھی تک بیانیہ اور شخصی ٹکراؤ کے باعث، پارٹی فکری لحاظ سے منقسم دکھائی دے رہی ہے، 2017 میں پارٹی قائد نواز شریف کی نااہلی اور سزا کے بعد پارٹی مبینہ طور پر دو واضح گروپوں میں تقسیم نظر آتی ہے، ایک گروپ نواز شریف کے ساتھ ہے، جو اپنی سزا کو غیر قانونی اور نااہلی کو ووٹ کی بے حرمتی قرار دیتے ہوئے، اسٹیبلشمنٹ کے خلاف اعلان بغاوت کرتے ہیں، اس بیانیہ کے ساتھ ان کی بیٹی نواز مریم نواز میدان میں اتریں اور عوام کو متوجہ کیا، دوسری طرف سابق وزیراعلی پنجاب شہباز شریف ہیں، جو یہ سمجھتے ہیں کہ اقتدار کے حصول کیلئے مفاہمت ضروری ہے۔ پی ڈی ایم کے قیام کے وقت شہباز شریف جیل میں تھے تو مریم نواز پیپلزپارٹی کے اتنی قریب چلی گئی کہ لاڑکانہ جا کر”جئے بھٹو“کے نعرے بھی لگائے، مگر تھوڑا اختلاف ہوا تو اب پی پی پی کا نام سننا بھی گوارا نہیں، شہباز شریف قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر ہیں، اسمبلی میں مشترکہ جدوجہد کیلئے پیپلزپارٹی سے سیاسی تعلقات بحال کرنے کے خواہاں ہیں، جبکہ مریم اس پر ناخوش ہیں، حالانکہ پارلیمانی سیاست اور ضمنی انتخابات میں کامیابی کو دیکھتے ہوئے مریم نواز بھی استعفوں کے مطالبے کو چھوڑ چکی ہیں اور آئندہ انتخابات کی تیاری کو ترجیح دے رہی ہیں۔ یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ مشکل حالات کے باوجود مسلم لیگ ن نے یکجہتی قائم ہے اور پارٹی میں کھل کر گروپ بندی یا الگ دھڑا بننے کی مخالفین کی خواہش پوری نہ ہو سکی اور عین ممکن ہے کہ مریم نواز کی مزاحمتی اور شہباز شریف کی مفاہمتی سیاست کے دونوں رنگ پارٹی کیلئے فائدہ مند ثابت ہوں‘عید سے قبل شہبازشریف نے عدالت سے اجازت لے کے لندن جانے کی تیاری کرلی تھی، وہ لندن میں نواز شریف کو اس بات پر قائل کرنا چاہتے ہیں کہ تھوڑی مصلحت اور مفاہمت سے کام لے کر سیاست کی جائے تو پنجاب میں نون لیگ کی واضح کامیابی کا امکان ہے، اس حوالے سے انہوں نے انٹرویو میں کہا کہ نواز شریف کے پاؤں بھی پکڑنے کو تیار ہیں، لیکن حکومت کی رکاوٹ سے ان کا لندن کا سفر فی الحال ملتوی ہو گیا ہے، جبکہ دوسری طرف کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ ووٹ نواز شریف کے نام پر ملنا ہے تو اقتدار شہباز شریف اور حمزہ شہباز کو کیوں ملے، یہ حقیقت ہے کہ مسلم لیگ نون کا وجود اور سیاست نواز شریف کی وجہ سے ہے۔ اس وقت شہباز شریف کو پارٹی کی تنظیم سازی پر بھی توجہ دینے کی ضرورت ہے، اور پنجاب کے تسلط کے تاثر کو زائل کرنے کیلئے فوری طور پر سیکرٹری جنرل کسی دوسرے صوبے سے نامزد کرنے کی ضرورت ہے، جو کارکردگی کے لحاظ سے خیبر پختونخوا کی شخصیت ہی ہوسکتی ہے، اس طرح کم از کم یہ تو ہوگا کہ مسلم لیگ نون کے قومی جماعت بننے کا دعوی تو سچ دکھائے گا۔ مسلم لیگ ن خیبر پختونخوا کے صدر جیسے متحرک اور کارکن دوست لیڈر کے سیکرٹری جنرل بننے سے پارٹی میں کارکنوں اور ورکروں کو بھی حوصلہ ملے گا کیونکہ ان کو مریم نواز اور شہباز شریف دونوں کا اعتماد حاصل ہے، کیونکہ انہوں نے کسی دھڑے بندی کا حصہ بننے کے بجائے، پارٹی کی مضبوطی کیلئے کام کیا ہے اور نواز شریف بھی ان کی کارکردگی سے مطمئن ہیں۔