جون کا مہینہ اس بات کیلئے مختص کیا گیا ہے کہ حکومتیں اپنے آ ئندہ سال کی آمدن اور اخراجات کے تخمینے لگا سکیں۔ یہ تخمینے تو دیکھا جائے تو زبانی کلامی ہی ہوتے ہیں مگر ان میں ایک بات کا خیال رکھا جاتا ہے کہ جیسے ہم اکنامکس میں پڑھتے ہیں کہ ”اگرحالات ایک جیسے رہے تو“ ایسا ہو جائے گا۔ اس ماہ میں سال کے اخراجات اور آمدن کے تخمینے لگائے جاتے ہیں مگر یہ تخمینے ماہرین معاشیات کے ہوتے ہیں جو مختلف مدات میں اندازہ کر کے تخمینے لگاتے ہیں اور اپنی بچت کیلئے ان تخمینوں کے ساتھ ایک فوراً ”اگر حالات موزون رہے تو“ لگا دیتے ہیں تا کہ اگر بات بگڑجائے تو کہہ سکیں کہ ہم نے کہا تھا کہ”اگر حالات موزوں رہے“ اور چونکہ حالات موزوں نہیں رہے اس لئے ہمارے تخمینے غلط ثابت ہوئے۔ ان حالات میں طوفان بھی شامل ہوتے ہیں جو فصلوں پر اثر انداز ہوتے ہیں اور ہماری پیداوار کی پیش گوئیاں غلط ثابت ہو جاتی ہیں۔ ا س میں ملک میں بد امنی بھی اثر ڈالتی ہے اور اگر جنگ وغیرہ کا ظہور ہو جائے تو بھی تخمینے غلط ثابت ہو جاتے ہیں مگر پھر بھی گھر یا ملک کو ایک سمت دینے کیلئے یہ ضروری ہوتاہے کہ ہم اپنی آمدن اور اخراجات کا تخمینہ لگا لیں کہ اس کیلئے ذرائع کو پیدا کریں اور استعمال کریں۔ یہ سارے تخمینے اس ماہ میں لگا کر اسمبلی میں پیش کر دیئے جاتے ہیں اور اس کوبجٹ کا نا م دیا جاتا ہے۔ اب کے بھی اس ماہ میں بجٹ پیش کیا جائے گا جس کا جلد ہی اعلان ہو جائے گا۔ بجٹ سے لوگ بہت سی امیدیں وابستہ کر لیتے ہیں خصوصاً تنخواہ دار طبقہ کہ جس کا اپنے بجٹ کا دارو مدار حکومتی بجٹ پر منحصر ہوتا ہے۔ اگر حکومت دیکھتی ہے کہ اس سال میں اگر سب کچھ ٹھیک رہاتو ہماری اتنی آمدن ہو گی اور اگر ہم اس کے مطابق اخراجات کریں تو ہمیں کچھ بچت ہو جائے گی یا ہمیں کسی دوسرے ملک کے آگے ہاتھ پھیلانے پڑیں گے۔ ابھی تک تو ہم نے یہی دیکھا ہے کہ اس ماہ میں حکومت بجٹ پیش کرتی ہے اور بجٹ پیش کرنے کے بعد لوگ تبصرے کرنے نکل کھڑے ہوتے ہیں او رجو حکومت کے ”بہی خواہ“ ہوتے ہیں وہ بجٹ کو ملک کی تاریخ میں بہترین بجٹ قرار دیتے ہیں اور جو ناقدین ہوتے ہیں وہ خواہ مخواہ کے کیڑے نکالتے رہتے ہیں۔ جبکہ حقیقت برعکس ہوتی ہے یعنی نہ تو بجٹ بالکل ہی ناقص ہوتا ہے کہ جس میں کوئی فائدے کا خیال نہیں رکھا گیا اور نہ ہی یہ خامیوں سے پاک ہوتا ہے۔اسلئے اگر اس میں کوئی خرابی ہے تو اس کی نشان دہی کی جائے اور اگر اس میں جو مثبت پہلو ہیں تو ان کو سراہا جائے۔اسی طرح سے ملکی معیشت اور اقتصادیات کو صحیح راستے پر ڈالنے میں مدد ملے گی اور ملک سے غربت و بے روزگاری کاخاتمہ ہوگا۔اس وقت ملک میں غربت کا یہ حال ہے کہ یہاں کا ٹیلنٹ اعلیٰ تعلیمی ادارے ملک میں نہ ہونے کی وجہ سے ضائع ہی ہو رہا ہے اور اس پلاننگ کی بھی کمی ہے کہ اس ٹیلنٹ کوباہر کے ملکوں میں اعلی تعلیم دلوا سکیں اگر ہمارے سیاست دان اس طرف بھی توجہ دیں تو شائد اس ملک کو ترقی کی منازل طے کرنے کا موقع مل سکے اور یہاں پر عوام کو درپیش مسائل کا خاتمہ ہو۔