فطرت زندگی ضرورت اور علامت ہے، اور فطرت کی حفاظت انسان پر فرض، جب اللہ تعالی نے زمین پر انسان کو آباد کرنا چاہا تو پہلے کرہ ارض پر جنگل، پہاڑ اور دریا ایک خاص تناسب سے پیدا کئے، ساتھ ہی جانور بھی پیدا فرمائے، یہ سب انسان کی غذا اور بقا کیلئے ضروری اور فطری لوازمات قرار پائے، جب تک انسان نے فطرت کے اس توازن کو برقرار رکھا، اچھی صحت اور لمبی عمریں پائیں، مگر جب فطرت سے کھلواڑ شروع کیا اور توازن کو بگاڑنا شروع کیا، تو پھر انسانی جسم کا اندرونی توازن بھی بگڑنے لگا، انسان کمزور اور عمریں کم ہونے لگیں، اب تو حالت بہت ہی خراب ہے، پینے کو پانی اور سانس لینے کو ہوا بھی صاف نہیں۔ ایسے میں صاحب ثروت افراد اور خاندانوں نے، شہری آبادیوں سے باہر نکل کر کھلی فضا میں فارم ہاؤس بنانے پر توجہ دی، فارم ہاؤس کا اصل تصور ایک ایسی جگہ ہے، جہاں وسیع اراضی ہو، باغ اور فصلیں کاشت ہوں، گھریلو جانور پالے جائیں، وہاں ہی رہائش بھی ہو۔ اگرچہ اب، جبکہ فارم ہاؤس بنانا ایک فیشن اور سٹیٹس سمبل بن گیا ہے، تو اس تصور کو بھی دھچکا لگا ہے، اب تو چند کنال اراضی پر بنے گھر کو بھی فارم ہاؤس کہا جاتا ہے، جہاں پودوں اور درختوں سے زیادہ، سیمنٹ اور لوہے کی عمارتیں بنا دی جاتی ہیں، لیکن بڑے شہروں سے ذرا فاصلے پر آج بھی کچھ لوگوں نے وسیع و عریض فارم بنا رکھے ہیں، ان میں اگر کوئی جگہ فطرت کے تقاضوں اور انسانی ذوق کے کمال پر دیکھنے کو مل سکتی ہے تو وہ نیساپور ہے، یہ اسلام آباد اور پشاور کے وسط میں، موٹروے سے ملحقہ، دریائے سندھ کے کنارے کی ایک ایسی جگہ ہے، جہاں فطرت کے تمام رنگ اپنے فطری جوبن پر ہیں، تو انسانی ذوق اور ہاتھ کی ہنرکاری بھی اپنے عروج پر ہے۔ جی ہاں، یہ جگہ پاکستان کی قومی شخصیت میجر عامر کی ملکیت ہے اور یہ انہی کا ذوق و شوق اور فطرت سے محبت کا نتیجہ ہے کہ ایک بے ترتیب جنگل اور دلدلی قطعہ اراضی کو بتدریج ایک جنت ارضی میں بدل دیا۔ پاکستان کی لاتعداد ہی صحافتی، ادبی، سیاسی اور کاروباری شخصیات ہیں، جو نیسا پور کے اس شاہکار کی سیاحت سے مستفید ہو چکی ہیں۔ اس علاقے کا اصل نام کیا ہے؟، یہ کسی کو بھی معلوم نہیں، اب تو شناخت بھی نیساپور ہے اور اس علاقے کا اعزاز بھی یہی ہے، یہ نام بذات خود ایک صوتی ردھم اور حسنِ سماعت کا حامل ہے، اس کی وجہ تسمیہ بھی بہت خاص ہے، جو دراصل میجر عامر کے بچوں کے ناموں کے ابتدائی حروف کا مجموعہ ہے، جبکہ نیساپور میں ہی خوبصورت حنہ باغ ان کی پوتی حنہ سے موسوم ہے۔ سینکڑوں ایکڑ پر پھیلے اس فارم میں عرب و عجم اور شرق و غرب کے پودے اور پھل دار درخت اپنے رنگ اور ذائقہ سے سارا سال شاداب رہتے ہیں، بہت سے نایاب پھل بھی موجود ہیں، جو غیر ملکی احباب تحفہ میں لگا گئے، ان کی حفاظت بچوں کی طرح کی جاتی ہے۔ ویسے تو ملک کے کئی مقامات پر صاحب ثروت شخصیات نے بڑے بڑے فارم بنا رکھے ہیں، لیکن ان میں فطرت سے زیادہ دولت کی فراوانی نظر آتی ہے، ذوق سے زیادہ شوق کار فرما دکھتا ہے، سب سے اہم بات یہ کہ ثروت مندی کا اظہار کے یہ شاہکار، صرف مالکان کیلئے مخصوص ہیں، ان کے برعکس نیساپور میں اگر کوئی تعمیری کام ہو رہا ہے، راہداریاں ہیں، دریائے سندھ پر خوبصورت بالکونی اور برآمدے ہیں، رہائشی کمرے ہیں یا بارہ دری یا نشست گاہیں ہیں، ان میں دولت کے خرچ سے زیادہ حسنِ فطرت اور ذوقِ نظر دکھائی دیتا ہے، اور یہ نایاب و نادر مقام میجر عامر کے دوست احباب سمیت، ہر اس شخص کیلئے کھلا ہے، جو فطرت سے پیار کرتا ہے، اسی لیے ہر روز کوئی نہ کوئی مہمان آیا ہوتا ہے۔ نیساپور کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ یہاں تمام زرعی اجناس اور پیداوار ان پر محنت کرنے والوں کی ملکیت ہے، کئی خاندان یہاں آباد ہیں اور جتنی اراضی آباد کر سکتے ہیں، وہ اس کے اکیلے ہی مالک ہیں، جبکہ میجر عامر ان کو زمین ہموار اور آباد کرنے کیلئے مشینری، آبپاشی کیلئے ٹیوب ویل اور دیگر زرعی آلات کے ساتھ پولٹری فارم بھی بنوا کر دیتے ہیں، نیساپور کی آباد کاری میں شامل ہر فرد کی اپنی الگ کہانی اور ماضی ہے، لیکن آج وہ اللہ کا شکر ادا کرتے ہیں کہ سکون سے رزق حلال کما کر اپنے خاندانوں کی پرورش کر رہے ہیں، یعنی نیساپور میں صرف نباتات کی بودوباش ہی نہیں، بلکہ انسانیت کے حسنِ کردار کی تعمیر و تکمیل بھی ہو رہی ہے۔ ایک دوست کا کہنا ہے کہ نیساپور میں اگر مختلف رنگ و نسل کے پرندے بھی ہوں تو فطرت کے تقاضے پورے ہو سکتے ہیں، ان کو بتایا کہ جس شخصیت نے یہ دنیا آباد کی ہے، وہ کسی مخلوق کو محدود یا محبوس کرنے کا سوچ نہیں بھی سکتی، چہ جائیکہ پرندوں کو پنجرے میں قید کرکے اپنی چشم تماشا کیلئے مخصوص کر دیا جائے۔ جہاں تک نیساپور میں موجود فطرت کی ازلی امانتوں کے جمع کرنے اور ان کو دست ہنر سے ترتیب دینے کا تعلق ہے، تو اس نظارے کی کیفیات بیان سے باہر ہیں، یہاں زبان وبیان کے جغادری اور قلم و قرطاس کے شہسوار بھی آئے، لیکن یہاں موجود قدرت کی صناعی اور انسانی ہنرکاری کا مکمل احاطہ نہیں کر پائے، جس نے جتنا دیکھا، اس کے سحر میں مبتلا ہو گیا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ نیساپور ایک ایسا جہاں ہے، جو قدرت نے انسان کو بطور امانت تفویض کیا تھا، میجر عامر نے تو اپنی ذمہ داری پوری کر کے فطرت کو محفوظ کرنے کی کوشش کی ہے، دوسروں کو بھی ترغیب ہو تو یہ دنیا اپنی اصل شکل میں بحال ہوسکتی ہے، جو زندگی کی علامت اور ضمانت ہے۔