مہنگائی سے جہاں عام آدمی اور سرکاری ملازمین متاثر ہوتے ہیں وہان پنشنر بھی ا سی کیٹیگری میں آتے ہیں۔ بلکہ کہا جائے کہ پنشنر کی ضرویات عام سرکاری ملازمین سے بھی زیادہ ہوتی ہیں۔ عام سرکاری ملازمین کو تو تنخواہ کے علاوہ میڈیکل کے طورپربھی حکومت امداد دیتی ہے۔ اوراس کے علاوہ بھی سہولیات حاصل ہوتی ہیں مگر پنشنر ز کے لئے تو ایک فکس قسم کی پینشن ہی ہوتی ہے جو ان کو ان کے اٹھائیس تیس سال کی ملازمت کے بعد ملتی ہے۔ا س میں ایک آدھ دفعہ حکومت نے کچھ رقم ان کی میڈیکل کی مد میں بھی رکھی ہے جو دیکھا جائے تو نہ ہونے کے برابر ہے۔ پینشنر اس عمر میں داخل ہو چکے ہوتے ہیں کہ جہاں ہر گلی میں ان کو کوئی نہ کوئی بیماری گلے ملنے کو تیارہوتی ہے۔ یعنی ایک تو ضعیفی جو بذات خود ایک بیماری ہے اور اس پرمستزاد یہ کہ کوئی نہ کوئی لا علاج قسم کی بیماری ان کے درپے ہوتی ہے۔کہنے کا مطلب یہ کہ یہ لوگ اس بات کے زیادہ مستحق ہوتے ہیں کہ حکومت ان کی علاج معالجے کا خیال رکھے۔ پچھلے کچھ عرصے میں حکومتوں نے اس بات کا خیال رکھا ہے کہ پنشنرز بھی بیمار ہو سکتے ہیں اس لئے انہوں نے پنشن کے ساتھ میڈکل کے لئے بھی کچھ رقم رکھی ہوئی ہے۔اور جب بھی پینشن میں اضافہ کیا جاتا ہے ساتھ ہی میڈیکل کی مد میں بھی اتنے ہی فی صد اضافہ کر دیا جاتاہے۔ دیکھا جائے تو یہ ان بوڑھوں کی بیماری کی ضروریات کے مقابلے میں نہ ہونے کے پرابر ہے لیکن چلیں پھر بھی یہ حکومت کی مہربانی ہے کہ اس بات کا خیال رکھا اور پنشن میں میڈیکل کی بابت بھی کچھ تھوڑی سی رقم رکھی۔ گو ان بوڑھوں کی طبی ضراریات کو دیکھا جائے تویہ اونٹ کے منہ میں زیرہ ہی دکھائی دیتا ہے مگر چلیں اس مد میں کچھ امداد تو حکومت کی طرف سے مل ہی جاتی ہے۔ اب کے جو سرکاری ملازمین کی تخواہوں میں اضافے کی تجویز یں وہ اس وقت تک اخباری اطلاعات میں آئی ہیں اس میں لگتا ہے کہ پینشنر کو نظر انداز کیا گیاہے۔ گو یہ ابھی تک اخباروں تک ہی محدود ہیں مگر چونکہ بات اخبارات میں آئی ہے تو اگراخبار کہتا ہے تو ٹھیک ہی کہتا ہو گا۔ توتشویش کی بات تو ہے کہ جوں جوں مہنگائی میں اضافہ اورخصوصاً دوائیوں کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہو ا ہے اور ہو رہاہے اور اس اضافے سے جو طبقہ بہت زیادہ متاثر ہوتا ہے وہ یہی بوڑھے پینشنر ہوتے ہیں اس لئے کہ ان کے پاس اور توکوئی ذریعہ آمدن ہوتانہیں اور ان کو جو کرنا ہے اپنی اس محدود سی پینشن میں ہی کرنا ہو تا ہے اس لئے حکومت کو چاہیئے کہ ادویات کی قیمتونں کو دیکھ کر ان پینشنر کا بھی خیال کریں کہ اب یہ جو عمر اپنی سروس کو دے چکے ہیں اس کے بعد وہ کسی اور سروس کے قابل نہیں رہے۔ اور جہاں تک بیماریوں کا تعلق ہے تو وہ صرف اسی طبقے کے ساتھ پیار رکھتی ہیں اور جس بھی گلی سے یہ لوگ گزرتے ہیں ایک آدھ بیماری ان کی راہ دیکھ رہی ہوتی ہے۔ یہ حکومت ہی ہے کہ جوان کا خیال کر رہی ہے اور ان کی پینشن میں میڈیکل الاؤنس کو بھی شامل کر لیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس کے لئے یہ لوگ حکومت کے مشکور بھی ہیں مگر جو ریٹ ادوایات کا چل رہا ہے اس کے مقابے میں تو میڈیکل فنڈ تو اونٹ کے منہ میں زیرا ہی لگتا ہے۔ اس لئے اگر حکومت مہربانی کرے تو ان بوڑھوں کے میڈیکل الاؤنس میں ادویات کی قیمتوں کو مد نظر رکھ کر اضافہ کر دے تو یہ بوڑھے اس حکومت کے لئے دست بدعا رہیں گے۔ اور سنا ہے کہ اللہ کریم بوڑھوں کی دعائیں سنتا ہے۔ جدھر حکومت اپنے سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور خصوصاً میڈیکل الاؤنس میں اضافہ کرنے جا رہی ہے تو اس اضافے کو پینشنروں کی طرف بھی موڑ دے تو حکومت دعائیں ہی لے گی۔ اس لئے کہ اس مہنگائی میں ادوایات پوری کرنا بہت ہی مشکل ہو گیا ہے اس لئے ہم چاہیں گے کہ حکومت اس طرف بھی توجہ دے تا کہ پنشنروں کے مسائل حل ہوں اور ان کو ایسے حالات میں زیادہ سے زیادہ سہولت میسر ہو جہاں ان کو توجہ کی ضرورت ہے دیکھا جائے تو باہر کے ممالک میں معمر افراد کے لئے پالیسیوں کو ترجیح دی جاتی ہے اور ان کے علاج اور فلاح و بہبود پر حکومت خصوصی توجہ دیتی ہے اب جبکہ حکومت نے تنخواہوں میں اضافے کے اعلانات کئے ہیں تو معمر پنشنرز کا بھی حق بنتا ہے کہ ان کے پنشن میں بھی خاطر خواہ اضافہ کیا جائے۔