قومی بجٹ، امید و یاس کا میزانیہ۔۔۔۔۔

موجودہ حکومت نے پہلے دو سال بجٹ میں تو سرکاری ملازمین کی اس امید کو ختم کرکے رکھ دیا ہے، البتہ اس بار نئے وزیر خزانہ نے امید دلائی ہے کہ تنخواہوں میں اضافے سمیت دیگر طریقے سے بھی ملازمین کو ریلیف ملے گا، خیبرپختونخوا کے وزیر اعلی محمود خان نے تو پہلے ہی اعلان کر دیا ہے کہ صوبائی ملازمین کی تنخواہوں میں 25 فیصد اضافہ ہو گا، اللہ کرے وہ اپنا وعدہ پورا کر سکیں، کیونکہ وفاق اور صوبوں کی مالیاتی وزارتوں کے انچارج اتنی دریادلی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ جہاں تک پنشن کا تعلق ہے، کسی بھی ریاست کے فلاحی ہونے کی سب سے بڑی دلیل بزرگ شہریوں کی مالی معاونت ہی سمجھی جاتی ہے‘ یورپ میں تو سابق سرکاری ملازمین کے علاوہ بھی بزرگ شہریوں کی کفالت کی جاتی ہے، مگر ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف ہمیں یہ باور کرا رہے ہیں کہ پنشن کی ادائیگی ہی ہمارے معاشی مسائل کی بڑی وجہ ہے، حکومتی ذرائع کے مطابق پنشن کا بجٹ تنخواہوں سے بھی بڑھ گیا ہے، یہ بات درست بھی ہو، پھر بھی ریاست اپنے سابقہ خدمت گاروں کو بے یارومددگار نہیں چھوڑ سکتی۔ عالمی ادارے یہ بھی زور دے رہے ہیں کہ پاکستان بدتریج پنشن ختم کرنے پر توجہ دے، اس کیلئے سروس پریڈ کم کرنے اور ریٹائرمنٹ پر یکمشت ادائیگی جیسی تجاویز بھی زیر غور ہیں، ایک اعلیٰ سطحی پے اینڈ پنشن کمیٹی تفصیلی سفارشات تیار کر رہی ہے، لیکن ہمارے خیال میں پنشن کا بجٹ زیادہ ہونے کی ایک وجہ بوگس ادائیگیاں بھی ہیں، کئی بار اس بات کا انکشاف ہوا کہ ہزاروں پنشنرز، جو فوت ہوچکے ہیں، مگر پوسٹ آفس یا بنک کا عملہ ان کی پنشن نکلوانا بند نہیں کرتے، جس طرح بجلی کے گردشی قرضوں میں اضافے کی بڑی وجہ لائن لاسز بتائے جاتے ہیں، اسی طرح گھوسٹ ملازمین اور بوگس پینشنرز بھی بجٹ خسارے کا باعث ہیں، اور یہ خود سرکاری محکمے ایسا کرتے ہیں۔ عام طور پر تعلیم اور بلدیات کے محکموں میں گھوسٹ ملازمین پائے جاتے ہیں، ہزاروں ایسے ملازمین کی تنخواہیں نکلوا لی جاتی ہیں، جن کا وجود ہی نہیں ہوتا، ایسے ہی پنشن ادائیگی میں ہوتا ہے، اطلاع کے باوجود فوت ہونے والے پنشنرز کو ریکارڈ سے نہیں نکالا جاتا، اور خزانے سے پنشن نکال لی جاتی ہے، اگر ان چور راستوں کو موثر طریقے سے بند کیا جائے تو عالمی اداروں کی تشویش کافی حد تک کم ہو جائے گی۔ اگر موجودہ حالات اور آنے والے بجٹ سے توقعات کا ذکر کریں تو وزیر خزانہ یقین دہانی کرا رہے ہیں کہ ابھی پینشن بھی ختم نہیں ہوگی اور تنخواہوں میں اضافہ بھی ہوگا، لیکن حکومت یہ سمجھنے سے قاصر ہے کہ اصل مسئلہ سرکاری ملازمین نہیں ہیں، یہ تو آبادی کا 8 فیصد ہیں، ان کو تو پھر بھی تنخواہ مل جاتی ہے، جبکہ اصل مسئلہ 90 فیصد سے زیادہ آبادی ہے،جس کی کوئی مستقل آمدنی نہیں ہے۔ بہرحال یہ تو حکومتوں کو بھی معلوم ہوتا ہے کہ تنخواہ بڑھنے سے تو صرف چند فیصد کو ہی فائدہ ملتا ہے، مگر جب قیمتیں بڑھتی ہیں تو ان سے ہر شہری متاثر ہوتا ہے، بجلی، پیٹرول کی قیمت میں پوری مارکیٹ کا رجحان پوشیدہ ہوتا ہے اور اس سے ہر شہری کا بجٹ متزلزل ہوتا ہے۔ عام طور پر،بجٹ سے پہلے ہر حکومت کی کوشش ہوتی ہے کہ مشکل معاشی حالات کا رونا رویا جائے، تاکہ عوام زیادہ توقعات نہ رکھیں، مگر اس بار نہ صرف وزیر خزانہ اچھی خبریں دے رہے ہیں بلکہ دیگر وزراء بھی معاشی نمو میں اضافہ اور ترقی کی خوشخبری سنا رہے ہیں۔ اگر معیشت بہتر ہو رہی ہے تو یہ ملک کے لیے بہت اچھا ہے، لیکن اپوزیشن برعکس دعوے کر رہی ہے،جہاں تک آئی ایم ایف کے مشوروں اور تجاویز کا معاملہ ہے توایسا پہلی بار نہیں ہو رہا ہے کہ بجٹ میں سفارشات آئی ایم ایف دے رہا ہے، ماضی میں بھی یہی روایت رہی ہے، اس سال تو وزیر خزانہ نے عالمی مالیاتی ادارے کے بہت سے مطالبات تسلیم کرنے سے انکار کر دیا ہے، بجلی کی قیمت میں اضافہ کرنے اور تنخواہوں میں اضافہ نہ کرنے جیسے مطالبات قبول نہیں کیے جائیں گے، اور اگر یہ بھی ہو جائے تو عوام کو کافی سہارا مل جائے گا۔ ویسے عقل مندی کا تقاضا تو یہی ہے کہ حکومت اور بجٹ سے زیادہ توقعات وابستہ نہ کی جائے، کیونکہ اس سے مایوسی بھی زیادہ ہوتی ہے، حکومت کی اپنی مجبوریاں ہیں اور عوام تو مجبور ہیں ہی، اس لیے اپنی اپنی مجبوریوں کے ساتھ ہی گزارہ کرنا پڑے گا۔ کیونکہ کسی بھی ملک کے معاشی حالات کا انحصار بین الاقوامی منڈی پر ہوتا ہے جس میں اتار چڑھاؤ کو کنٹرول کرنا کسی ایک ملک کے بس کی بات نہیں۔